سیاسی محاذ آرائی اورخدشات

بڑے انتظار کے بعد اپوزیشن کی طرف سے بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دیا گیا، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے لئے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایاجانے والا یہ اجلاس، حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے یکساں اہمیت کا حامل ہے، اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں کچھ کہنا مشکل ہے، بہرحال ان حالات کے سیاسی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس کے باوجود سیاسی تنازعات میں کمی کے شواہد بھی قابل غور ہیں، چند روز پہلے اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہ کرنے کی صورت میں ایوان کے اندر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا، مگر گزشتہ روز ایسی صورت حال پیدا نہ ہونا خوش آئند ہے اور یہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں باہر جتنا بھی تنا ؤکا شکار ہیں، پس پردہ دانش و منطق کا عمل بھی کارفرما ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے، یہی حالات کا تقاضا بھی ہے، جب دو متحارب ممالک جنگ کے دوران بھی ایک سطح پر آپس میں رابطہ رکھتے ہیں تو سیاسی جماعتیں ایسا کیوں نہیں کر سکتیں، حالانکہ سیاسی جماعتوں پر اس سے زیادہ رابطہ کاری ضروری ہوتی ہے، ظاہر ہے جب مشورے باہم نہ ہوں گے تو رنجشیں ہی بڑھیں گی اور ان رنجشوں کا ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہونا۔
 اپوزیشن نے جو اسمبلی میں دھرنا دینے کا بیان دیا تھا، تو یہ محض جذباتیت تھی، مگر گزشتہ روز اس حوالے سے کئی خدشات بھی تھے لیکن اپوزیشن کا رویہ قابل ستائش قرار دینا چاہیے، اپوزیشن اور حکومت دونوں کو باور کرنا چاہئے کہ ایوان میں ان کا برابر استحقاق ہے، اس لیے اپوزیشن کو اس وہم کا بھی شکار نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت اپنے حق میں کاروائی اور فیصلہ کروانے میں کامیاب ہوجائے گی، یہ سپیکر صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں دھڑوں میں توازن قائم رکھیں، جمہوریت کی گاڑی ایسی صورت میں ہموار سفر کر سکتی ہے، جب ایوان میں توازن کا ماحول برقرار رہے۔ منفی سیاست نہ پارلیمان کے اندر جائز ہے اور نہ باہر، معاملہ خواہ تقاریر کا ہو یا جلسوں کا، ہر سیاسی جماعت کے اصول ہیں، مگر ہمارے ہاں مروج کچھ اور ہے، ہمارے رہنما مخالف کو جب تک جی بھر کر ادھیڑ نہ لیں انہیں اطمینان نہیں ہوتا۔ زبان سے لگائے زخم تادیر نہیں بھرتے اور اس کا اثر سماج میں تلخی بھر دے گا، کیونکہ سیاسی جماعتیں جیسی بھی ہیں، ہر ایک کا حلقہ اثر موجود ہے، جب رہنما ایک دوسرے پر ذاتی اور شخصی حملے کریں گے تو یہ ممکن نہیں کہ ان کے حامی اس سے متاثر نہ ہوں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئندہ چند دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے جلسے آگے پیچھے ہوں گے، چنانچہ دونوں اطراف کا فرض ہے کہ وہ ایسے اصول طے کرلیں، جن کی پاسداری کی جائے۔ 
اگر یہ بات ہماری سیاسی قیادت کی سمجھ میں آ جائے تو اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تلخیاں کم ہو سکتی ہیں۔ گیند اس وقت سیاسی قیادت کی کورٹ میں ہے، عدالت عظمی کی طرف سے بھی پارلیمانی رہنماؤں کو بار بار یہ یاد دلایا گیا کہ پارلیمانی مسائل پارلیمان میں ہی طے کریں، رائے ساز اور دانشمند حلقے بھی مسلسل اس بات کو دہرا رہے ہیں، اب یہ سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہو۔ یہ بات ہے کہ موجودہ صورتحال میں صرف اس پہلو کی حمایت کی جاسکتی ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں ہو، خلاف قانون کچھ بھی قابل قبول نہیں، خواہ وہ ارکان پارلیمان کی ناجائز طریقے سے حمایت کا حصول ہو یا آپس میں ذاتیات پر حملے، حکمران پی ٹی آئی کے تاثرات سے لگتا ہے کہ وہ لمبی اننگز کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے، مگر بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ ان حالات کو جلد از جلد نمٹایا جائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو، ہم داخلی صورت حال سے فرصت پا کر ہی عالمی منظر نامے پر غور کر سکتے ہیں اور اس سے اپنے ملک کے مفاد اور کردار کا تعین کر سکتے ہیں، دوسری طرف عوام اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور لوگ مہنگائی کی زد میں ہیں، حکومت اور اپوزیشن اگر اپنی لڑائی میں مصروف رہیں گی تو عام آدمی کے مسائل کون حل کرے گا، ہماری معیشت بھی توجہ چاہتی ہے، درآمدات اور برآمدات میں توازن قائم کرنے کا معاملہ بھی  اہم ہے، الغرض معاشی صورتحال کا بھی تقاضہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی جلد از جلد ختم ہو تاکہ ملکی معیشت کو درپیش مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکے۔