پاکستان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا اور دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے اس کا قیام ممکن ہوا۔ ایک سیاسی تحریک اور انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والے ملک میں سیاست تو ہے مگر جمہوریت اور جمہوری رویے ناپید ہو چکے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کو نظر انداز بھی کر دیں تو حالیہ چند سالوں میں سیاست کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ جمہوریت کیلئے ایک تازیانے کی حیثیت رکھتاہے۔اگر ملک کے ماضی قریب کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑائی جائے تواگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں پارٹیوں کی قیادت ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات بھی لگاتی رہی، مگر ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہی۔ 2018 کے انتخابات میں ایک تیسری پارٹی پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آگئی، جس کے چیئرمین ایک مشہور کھلاڑی اور مقبول شخصیت عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف پانامہ لیکس کے نتیجے میں سامنے آنے والی بیرون ملک جائیداد اور اثاثوں کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے سزا پاکر نااہل ہوگئے2019میں وہ طبی بنیاد پر ضمانت پر علاج کرانے کیلئے برطانیہ گئے تھے مگر ابھی تک واپس نہیں آئے۔اب ان کی پارٹی اس کوشش میں ہے کہ نہ صرف نوازشریف کی واپسی ہو بلکہ چوتھی بار اقتدار بھی مل جائے۔مگر اس میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان ہیں۔ اگر چہ اس دوران حز ب اختلاف سے تعلق رکھنے والی ان جماعتوں نے اپنی بھر پور کوشش کی کہ شروع دن سے ہی حکومت کو رخصت کردے تاہم چار سال گزارنے کے بعد بھی یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔اس وقت ملک کے کئی حصوں میں بلدیاتی انتخابات کا عمل بھی جاری ہے اور ایک طرح سے سیاسی کارکن سرگرم ہیں۔تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک حکومت بننے کے بعد اسے ختم کرنے کو ہی سیاست سمجھیں۔بلکہ جہوریت تو تب ہی مضبوط ہوگی کہ جب ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار آنے کے بعد جو بھی جماعت حکومت بنائے وہ اپنی مدت پوری کرے اور جو ایجنڈہ یا منشور اس کے پاس ہے اس پر عمل کرے۔ اگر وہ اپنے منشور اور وعدوں پرعمل کرنے میں ناکام رہے تو عوام اپنے ووٹ سے کسی اور کو حکومت بنانے کا موقع دیں دوسری صورت میں اگر کوئی جماعت عوام سے کئے وعدوں کو پورا کرتی ہے اور اپنے منشور پر عمل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو اسے دوبارہ بھی حکومت بنانے کا موقع ملے۔تاہم یہاں پر اس کے برعکس عمل ہورہا ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر کبھی بھی کسی حکومت نے اپنی معینہ مدت پوری نہیں کی۔اسی رویے کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں قیادت خاندانی وراثت کی طرح چل رہی ہے کوئی جمہوری روایت نہیں۔اس صورت حال میں جمہوریت کی کمزوری کا الزام کسی اور پر لگانے کی بجائے سیاسی جماعتوں کو اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ویسے دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے پاس حکومتوں کو بنانے اور گرانے سے ہٹ کر بھی اہم ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے عوام جب کسی جماعت کو مینڈیٹ سے نوازتے ہیں تو ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ حکومت میں آکر یہ جماعت عوامی مسائل پر توجہ مرکوز کرے گی اور عوام کو درپیش مشکلات کا حل نکالے گی اس کے ساتھ ساتھ عوام یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں عوامی اور ملکی مفاد کے اہم نکات پر متفق ہوں۔موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو اس گرماگرمی اور آپس میں چپقلش میں عوامی مسائل کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔