یوکرین اور رو س کے جنگ نے مغرب کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے،یوکرین پر روسی حملے کے بعد ہنگری نے ہزارہا یوکرینی پناہ گزینوں کیلئے اپنی سرحدیں کھول دیں جبکہ دیگر پناہ گزینوں کو سربیا کے میدان میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پناہ کے متلاشی ایک افغان طالب علم کی کہانی منظرعام پر آئی ہے جس نے مشرقی یورپی ملک ہنگری آکر تین سال تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے آبائی ملک میں تازہ سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے پیش نظر اس نے ہنگری میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروائی۔ ہنگری کے حکام نے اسے سیاسی پناہ دینے کی بجائے ملک سے نکال کر سربیا کی سرحد کے اندر دھکیل دیا۔ سربیا اس افغان نوجوان کیلئے بالکل انجان ملک ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا۔ بعد ازاں اس طالب علم نے سربیاکے دارالحکومت بلغراد میں میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے مجھے ہتھکڑیاں لگائیں اور کہا بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ ہم سے لڑنے کی کوشش نہ کرو، کچھ نہ کرو۔اسے سربیا کے ایک میدان میں بالکل تنہا چھوڑ دیا گیا جہاں میلوں تک کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ 25 سالہ طالب علم کو کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں، انہوں نے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے؟ وہ کہتے ہیں، وہ ایک طالب علم تھا، انہوں نے اس کی زندگی کو بالکل گھما کر رکھ دیا۔
انہوں نے اس سے کپڑے، فون، چارجر، لیپ ٹاپ یا کوئی اور اہم چیز جس کی اسے سفر کے دوران ضرورت ہو، نہیں لینے دی۔ انہیں نہ تو سربیا کی زبان، نہ ہی اس کے جغرافیہ اور ثقافت کا کوئی علم تھا۔ہنگری اس بارے میں مشہور ہے کہ غربت اور جنگ کے شکار معاشروں سے آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کے ساتھ یہ ملک بہت بہیمانہ سلوک کرتا ہے۔ افغان طالب علم کی ہنگری سے جلا وطنی کا کیس اس لیے بھی سنگین ہے کہ وہ کسی غیر قانونی راستے یا طریقے سے نقل مکانی کر کے نہیں آیا تھا بلکہ اپنے اخراجات پر طالب علم کی حیثیت سے بوڈاپیسٹ میں رہ رہا تھا۔اس نے افغانستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس لیے سیاسی پناہ کیلئے درخواست دی تھی کہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی فیملی اب اس کی یونیورسٹی کی فیس ادا نہیں کر سکتی اور اس طرح وہ ہنگری میں اپنے رہائشی اجازت نامے کی تجدید نہیں کرواسکتا۔
اس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ہنگری کے حکام نے اس حقیقت کو سرے سے نظر انداز کیا کہ اس کے آبائی وطن افغانستان میں حالات خراب تھے۔ اس طالب علم کے خاندان والوں کے افغانستان کی سابقہ حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور موجودہ حالات میں وہ واپس نہیں جا سکتا تھا۔ اس ایک واقعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس طرح مغربی ممالک اپنی پالیسیوں کو نسل پرستی پر تشکیل دیتی ہیں اور ایک نسل کے لئے اگر وہ ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں تو دوسروں کیلئے وہ ظالم اور بے رحم ثابت ہوتے ہیں۔ یہ صرف ہنگری کا معاملہ نہیں بلکہ دیگر یورپی ممالک میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے شام سے آئے ہوئے مہاجرین کیلئے سرحدات بند کیں اور خونخوار کتوں کی مددآنے والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ ناروے کے حوالے سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے یوکرین میں بحران پیدا ہونے کے بعد یہاں سے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جبکہ دوسری طرف اس ملک نے ماضی میں پناہ کیلئے آنے والوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا۔عالمی اداروں کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہئے تاکہ مغربی ممالک کے منافقانہ رویے کے باعث تکلیف سہنے والے لوگوں کو جو ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑا اس کی تلافی ہو۔