خود نوشت ایک مقبول ادبی صنف ہے، مشہور و اہم شخصیات کی خودنوشت روداد زندگی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں، کیونکہ یہ ایک شخصیت کی زندگی کے سفر میں پیش آنے والے واقعات کی ایک زندہ تاریخ ہوتی ہے۔بالخصوص سیاست و حکومت سے وابستہ شخصیات کی خودنوشت کتب کئی اہم واقعات کی شہادت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حقیقت بھی بیان کرتی ہیں۔چند سال پہلے شیخ رشید احمد کی خودنوشت، 'لال حویلی سے اقوام متحدہ تک شائع ہوئی جو بہت پسند بھی کی گئی‘ یہ تو عام مقولہ ہے کہ سچ بولنا اور سچ لکھنا مشکل کام ہوتا ہے،اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ اپنے بارے میں سچ بولنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، بالخصوص زندگی کے سفر میں ہمراہ آنے والی شخصیات کے بارے میں سچ بولنا تو ناممکن ہو جاتا ہے۔بہر حال اس صنف میں ایک مشہور کتاب شہاب نامہ، ایسی کتاب کہی جا سکتی ہے‘جوخودنوشت ہونے کے ساتھ تحریک پاکستان کے پس منظر اور قیام پاکستان کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سازشوں کی مستند تاریخ بھی ہے‘ اس کے بعد ایک دوسری کتاب گزشتہ ہفتے ملی۔
جو پشتو ادب کے معروف استاد، کالم نویس صحافی اور دانشور ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما کی خودنوشت ”کہانی زندگی کی“ہے۔ اس کا کئی حوالوں سے شہاب نامہ کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے۔پہلی بات تو یہ کہ کتاب حقیقی خود نوشت ہے، اور ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جس نے عام زمیندار گھرانے اور محنت کش خاندان میں جنم لیا۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں ابتدائی زندگی گزاری اور قیام پاکستان کے فوری بعد پاکستان میں اپنے آبائی شہر مردان کی بستی بغدادہ میں واپس آکر زندگی کا باقی سفر مکمل کیا۔ڈاکٹر ہمایوں ہما نے کتاب کے پہلے باب میں اپنے بچپن کی یادوں کو دھندلی قرار دیا ہے۔مگر جب وہ ان یادوں کو قلم کے ذریعے قرطاس پر منتقل کرتے ہیں، تو قاری کیلئے اتنا واضح منظر کھینچتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ان کے والد کی ورکشاپ پر نظریں جمائے ہندوؤں کے چہرے اور 1949 میں پاکستان کی سالگرہ منانے والے بچوں اور بزرگوں کے مسرور اور خوشنما چہرے بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ہمایوں ہما نے جیسی زندگی گزاری، جن رشتوں سے پالا پڑا ان کے جذبات، قربانیوں اور مشقت تک کو بیان کر دیا۔ یہ صرف ان کی زندگی کی کہانی نہیں بلکہ ایک وسیع خاندان کی کہانی ہے جو ہر طرح کے حالات میں ایک دوسرے کا سہارا بنا رہا اور اسی وجہ سے ڈاکٹر ہمایوں ہما کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع بھی مل سکا‘اس خودنوشت میں نہ صرف بھوپال اور لکھنو کے حالات اور قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کی حالت زار کو سچائی سے بیان کیا گیا ہے، بلکہ 1947 اور 1950 کے درمیان مردان اور ملحقہ علاقوں کی تہذیب و تمدن اور بودو باش کے ذرائع پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے‘تقریبا ً210 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو 23 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے مگر یہ مسلسل پڑھنے کے قابل اور واقعات کے تسلسل کی وجہ سے ایک ناول کی طرح دلچسپ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس میں واقعات اور کردار حقیقی ہیں۔بہرحال ڈاکٹر صاحب نے ایک عام آدمی کی کہانی کو اس قدرعمدگی سے بیان کیا ہے کہ خود نوشت پڑھنے کے شوقین قارئین کو اس میں ہر وہ دلچسپی ملتی ہے جو خاص لوگوں کی کہانیوں میں ہو سکتی ہے۔یہ خود نوشت ایک کھرے اور سچے استاد کی داستان حیات ہے، جس نے عام آدمی کو خاص شخصیت بنانے والے عوامل کا بلیغ احاطہ کیا ہے۔کسی بھی خودنوشت کی خاص بات اس کی زبان ہوتی ہے جس قدر سلیس اور دل کش پیرائے میں بات کی جائے اتنی ہی وہ دل میں اترتی ہے اور قارئین خودنوشت کو تفریح اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں جبکہ دوسری طرف زبان دقیق اور مشکل ہو تو پڑھنے والے بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں ڈاکٹر ہمایون ہما نے اس کا خاص خیال رکھا ہے۔