سہولیات کا خمیازہ

ایک وقت تھا کہ اے سی اور ریفریجریٹر کا نام و نشان نہیں تھا‘ پھر بھی زندگی چلتی رہی اور خوب مزے سے چلتی رہی۔ کیونکہ اس وقت انسانوں نے فطرت کے مطابق جینے کا ڈھنگ سیکھا تھا اور وہ گرمی اور سردی کا توڑ اپنے ماحول کے مطابق کرتے تھے۔ اب ہر جگہ اے سی لگے ہوئے ہیں، اس کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں ہوتا، بچے بڑے سب اس کے عادی ہوگئے ہیں اور ایک لمحے کیلئے بھی اے سی بند ہو تو لگتا ہے سانس لینا مشکل ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے جس میں مضر صحت گیسز کا اخراج سر فہرست ہے، واضح رہے کہ کئی طرح کی گیسزاے سی اور ریفریجریٹر سے بھی خارج ہوتی ہیں۔ ایچ ایف سی گیسز زمین کی حفاظتی اوزون تہہ کو تو نقصان نہیں پہنچاتیں لیکن یہ طاقتور گرین ہاؤس گیسیں ہیں جو زمین کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 140 سے 11 ہزار 700 گنا زیادہ گرم کرتی ہیں۔ ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشننگ سے ہونے والا اخراج گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریبا 10 فیصد ہے جو ہوا بازی اور جہاز رانی کی صنعت کے

اخراج سے بھی 3 گنا زیادہ ہے۔اس وجہ سے 2019 میں ترقی یافتہ ممالک نے ایچ ایف سیز کو مرحلہ وار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور ترقی پذیر ممالک 2024 سے 2028 کے دوران اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔حال ہی میں پاکستان کی جانب سے بھی اس سمت میں پہلا قدم اٹھانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اکتوبر 2021 میں پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 2026 تک ملک میں پاکستان کولنگ ایکشن پلان کو اختیار کرلیا جائے گا۔ یہ ملک میں کولنگ کی کلیدی ضروریات کی نشاندہی کرے گا اور اس میں ماحول پر کم سے کم اثرات کے ساتھ کولنگ سے متعلق موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اقدامات کو ترجیح دی جائے گی۔اس منصوبے کے بارے میں بہت محدود سرکاری معلومات دستیاب ہیں۔ بہرحال یہ خبر پاکستان کی موسمیاتی پالیسی کے حوالے سے ایک اہم وقت پر آئی ہے۔ ملک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ مہلک ہوتی جارہی ہے۔

گزشتہ سال جون میں ایک جانب گرمی کی شدت اور ایئر کنڈیشننگ کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب بجلی کی فراہمی متاثر ہونے لگی۔جیسے جیسے ملک ترقی کرے گا اور اس کی آبادی بڑھے گی ویسے ہی ایئر کنڈیشننگ کی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔ انسانی صحت اور بہبود کیلئے اہم ہونے کے علاوہ، کولنگ یا ایئر کنڈیشنگ ٹیکنالوجی اقتصادی ترقی کیلئے بھی اہم ہے، دوسری جانب صنعتی پیداوار اور خوراک و ادویات کے تحفظ کیلئے بھی ریفریجریشن ضروری ہے۔کولیبریٹو لیبلنگ اینڈ اپلائنس اسٹینڈرڈز پروگرام ایک بین الاقوامی این جی او ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ پاکستان کے کولنگ ایکشن پلان کے مسودے میں معاونت کرنے والی تنظیموں میں سے ایک ہے۔  اس کے تجزئیے کے مطابق دنیا جتنی زیادہ گرم ہوتی ہے، اتنا ہی ہم خود کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ایئر کنڈیشننگ کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ کولنگ کے آلات سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں ہماری دنیا کے درجہ حرارت میں کتنا اضافہ کررہی ہیں۔

2018 میں ایئر کنڈیشننگ کی کل عالمی طلب میں پاکستان کا حصہ 0.7 فیصد تھا، ایک تخمینے کے مطابق یہ طلب عالمی سطح پر 11 کروڑ 10 لاکھ میں سے 8 لاکھ 24 ہزار یونٹس تھی۔ محققین کا اندازہ ہے کہ پاکستان دنیا میں ایئر کنڈیشنگ کی طلب کے حوالے سے پانچویں نمبر پر ہے۔پاکستان کے مسائل میں سے ایک مسئلہ پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی میں بہت سے مسائل کے ساتھ ماحولیاتی مسائل کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔پاکستان بھی اس سمت قدم اٹھانے والے ممالک میں سے ہے۔ پاکستان کولنگ ایکشن پلان اس سمت میں پہلا قدم ہے اور یہ 2023 تک تیار ہوجائے گا۔ پاکستان کی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے نیشنل پروگرام کے مطابق دیگر اشیا کے علاوہ مستقبل میں استعمال ہونے والے برقی آلات کو کم از کم انرجی پرفارمنس سٹینڈرڈپر عمل کرنا ہوگا

اور عمارتوں کی انسولیشن پر بھی توجہ دی جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ کولڈ چینزجو ترسیل کے دوران خراب ہونے والی اشیائے خور و نوش کی تازگی کو برقرار رکھتی ہیں کولڈ سٹوریج اور ریفریجریٹڈ ٹرانسپورٹیشن بھی منصوبے کا حصہ ہوں گی۔اگرچہ پاکستان کولنگ ایکشن پلان ایک پابند دستاویز نہیں لیکن یہ کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔مصنوعی ریفریجرینٹس کو قدرتی ہائیڈرو کاربن اور ہائیڈرو فلورولفائنز سے تبدیل کیا جائے گا۔ ایچ ایف اوز مصنوعی ریفریجرینٹ ہیں، لیکن اس وقت استعمال ہونے والے کیمیکلز کی نسبت کم گلوبل وارمنگ کا باعث بنتے ہیں۔ چونکہ یہ کام بتدریج ہوگا

اس وجہ سے پاکستان 2040 تک ایچ سی ایف سیز کا استعمال جاری رکھ سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر کولنگ آلات کی زیادہ سے زیادہ عمر تقریبا 15 سال ہوتی ہے اور اس وقت تک ملک کے زیادہ تر پرانے آلات تبدیل ہوچکے ہوں گے۔ اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ سہولیات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور ہم جن اشیاء کو سہولت سمجھتے ہیں وہ بسا اوقات زحمت اور تکلیف کا باعث بھی بنتی ہیں۔