اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک طرف اگر روس یوکرین کا تنازعہ چھایا ہواہے تو دوسری طرف سری لنکا میں شدید ترین معاشی بحران بھی میڈیا میں زیر بحث ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے کچھ ایسا عالمی معاشی ڈھانچہ بنایا ہوا ہے کہ جس میں ترقی پذیر ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلط کرنے کی کئی راہیں نکالی گئی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک نے اپنی معیشت کو غیروں کے اثرات سے آزاد رکھنے کیلئے خاطر خواہ کوششیں نہیں کیں اور مشکل وقت آنے پر ان کے پاس علاوہ اس کے کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا کہ وہ ترقی یافتہ ممالک اور ان کے مالیاتی اداروں سے مالی مدد طلب کریں اور پھر عالمی طاقتوں کے زیر سایہ یہ مالیاتی ادارے کسی بھی ملک میں ایسی جڑیں گاڑ لیتے ہیں کہ پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی خوشنودی کیلئے عوام پر طرح طرح کے ٹیکسز مسلط کئے جاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی سے بھی یہ ادارے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس وقت دنیا کے کئی حصوں میں ایک افراتفری کا جو ماحول ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئے ورلڈ آرڈ کیلئے زمین تیار کی جارہی ہے اور ممالک ۔یعنی ایک بار پھر دنیا بلاکوں میں تقسیم ہوگی۔سری لنکا کے چین کے بہت قریب جانے کا نتیجہ اب سامنے آنے لگا ہے اور امریکہ کے زیر سایہ عالمی مالیاتی اداروں نے یہاں پر ایسا کھیل کھیلا ہے کہ اب یہاں کی حکومت کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ حالات کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔سیاحت اور چائے کی کاشت کیلئے مشہورسری لنکا کو 1948 میں اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے زیادہ سخت معاشی چیلنج کا سامنا ہے اور اس کا شبہ کئی دنوں سے ظاہر کیا جارہا تھا۔ ملک میں جاری مظاہروں کے نتیجے میں اتوار کے روز پوری کابینہ مستعفی ہوگئی
اور صرف صدر گوٹابایا راجاپاکسے اور وزیرِاعظم مہندا راجاپاکسے اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔یوں تو اس ملک میں موجود مسائل کی وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں تاہم یہاں پر موروثی سیاست بھی ایک عنصر ہے جس نے اس ملک کے انتظامی اور معاشی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے۔مہندا راجاپاکسے کا دورِ صدارت 2005 میں شروع ہوا اور 10 سال تک چلا۔اس وقت کے وزیر دفاع آج کے صدر یعنی گوٹابایا راجاپاکسے تھے۔ ان کے تیسرے بھائی باسل اس دوران وزیر برائے معاشی ترقی رہے اور 2019 میں جب ان کا خاندان اقتدار میں واپس آیا تو انہیں وزیرِ خزانہ بنادیا گیا۔اس وقت راجاپاکسے خاندان جس بحران سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے اس کی وجہ کچھ قابلِ گریز معاشی بدانتظامی کی مثالیں بھی ہیں۔ ان میں غیر ضروری ٹیکس چھوٹ اور گزشتہ سال کھاد پر لگائی جانے والی پابندی تھی جس نے زرعی شعبے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
اس کے علاوہ ملک کا بڑھتا ہوا بیرونی قرضہ بھی ادا نہیں ہورہا تھا کیونکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم تھے۔بنیادی ضروریات تک آسان رسائی کئی مہینوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ خاطر خواہ ریلیف دینے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مظاہرے شروع ہوئے جو پرتشدد ہوگئے۔کچھ ایسے گھرانوں کے بارے میں بھی خبریں آئیں جو ماضی کی نسبت 10 گنا کم چیزیں خرید سکتے ہیں اور اسی سے گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ خشک دودھ کمیاب ہوچکا ہے۔ دودھ والی چائے اب ایک روزمرہ کی خوراک کی جگہ نسبتاً تعیش بن چکی ہے۔ روزانہ 13 گھنٹے ہونے والی بجلی کی بندش کے دورانیے میں مزید اضافے کا امکان ہے‘بہرحال اس صورتحال میں بہت سے دیگر ممالک کیلئے ایک سبق ہے۔ کہ کس طرح انتہائی تیزی کے ساتھ کسی بھی ملک کی معیشت گر سکتی ہے اگر اس کو سنبھالا دینے کیلئے خاطر خواہ کوششیں نہ کی جائیں۔