وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب بھی مکمل ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ بے یقینی کے اس دور کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے، جس نے تقریبا ایک ماہ سے ملک و قوم کو جکڑ رکھا تھا‘یہ بات خوش آئند ہے کہ مجموعی طور پر سارا عمل خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے اور دعا ہے کہ جمہوریت کا سفر آگے بھی خوش اسلوبی سے طے پائے۔ بے شک ایوان اور پارلیمان کی حد تک یہ بڑی کایا کلپ تھی، جس کی مثال ملکی تاریخ میں پہلے نہیں ملتی، مگر جمہوری اقدار کو رہنما بنایا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ساری پیشرفت رولز آف گیم کے مطابق تھی، اس لیے اب مزید انا کا مسئلہ بنائے بغیر اسے من و عن قبول کرنے میں ہی سب کی بھلائی ہے، ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں اس نوعیت کی تبدیلیاں سماجی اور سیاسی سطح پر کوئی طوفان بپا کئے بغیر گزر جاتی ہیں،
نہ اداروں کی کارکردگی پر کوئی حرف آتا ہے نہ عوام ہیجان میں آتے ہیں، نہ سیاسی رہنما اس کو عزت و انا کا مسئلہ بناتے ہیں، ہمارے ہاں چونکہ جمہوری اقدار سیاسی نفسیات اور رویوں میں پنپ نہیں سکیں اس لئے معمول کا سیاسی عمل بھی مشکل بن جاتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اقتدار کی تبدیلی کا یہ عمل آئینی تقاضوں کے مطابق انجام پایا ہے اس طرح ایک ماہ بعد ملک میں سیاسی حالات معمول پر آئے ہیں، اگرچہ یہ صرف اقتدار کی بازی پلٹنے کا عمل ہے مگر سیاسی رہنما چاہیں تو اس موقع کو سیاسی تبدیلیوں کے دور رس نقطہ آغاز بھی بنا سکتے ہیں۔ نئے وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ یہ ایک نئی صبح کا آغاز ہے، انہوں نے اس جذبے کا اظہار بھی کیا کہ ہم کسی سے ناانصافی نہیں کریں گے، کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے، کسی کو بے جواز جیلوں میں نہیں ڈالیں گے، اداروں کے ساتھ مل کر ملک کو چلائیں گے
اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بھی بنائیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں، اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کے کچھ اقدامات کا بھی اعلان کیا ہے، یہ مستحسن بات ہے کہ نئے وزیراعظم نے سیاسی مخالفین کیلئے ایک لفظ بھی نفرت انگیز نہیں کہا اور نہ ہی سیاسی مخالفین کو شکست و ناکامی کا طعنہ دیا، اگر اب برسر اقتدار آنے والے، جانے والوں کے ساتھ پرانے حساب کتاب برابر کرنے میں پڑ گئے تو کوئی شک نہیں کہ نقصان ملک و قوم کا ہی ہوگا۔ شہباز شریف اور اتحادیوں کو الگ روش اختیار کرنا ہو گی اور نفرت کی سیاست کے بجائے مل کر چلنے اور کام کرنے کا ماحول بنانا ہوگا، اگرچہ ہمارے جیسے کثیر سیاسی جماعتوں والے نظام میں یہ توازن قائم کرنا آسان نہیں، مگر بے حد ضروری ہے، جمہوریت کی گاڑی حکومت اور اپوزیشن میں توازن کے ساتھ ہی سیدھی چلتی ہے‘اس حوالے سے سیاسی قیادت کا بھاری بھرکم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ایسے حالات بنائے جہاں عوام کے مسائل حل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام کی صورت میں جمہوریت بھی مستحکم ہو اور اسکے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہو۔