نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کیلئے کابینہ کی تشکیل آسان مرحلہ نہیں تھا، ایک درجن اتحادیوں کو مناسب حصہ دینے اور سیاسی اور صوبائی توازن قائم کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا، اب جب کہ ایک سیاسی اور پارلیمانی بحران کے نتیجے میں اپوزیشن کو حکومت بنانے کا موقع ملا ہے تو پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے وزیراعظم کا منصب نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کو مل گیا، اس موقع پر اگر نون لیگ کے ارکان پارلیمنٹ کی یہ خواہش ہو کہ وہ کابینہ کا حصہ بنیں، تو یہ ایسی بے جا بھی نہیں، لیکن سب کو یہ معلوم ہے کہ ایک مستحکم حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اکیلے مسلم لیگ نون کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی قیادت کا بھی بہت نمایاں حصہ ہے، بالخصوص پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور پی ٹی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے بہت بڑا کردار ادا کیا، اس لیے نئی کابینہ کی تشکیل میں ان جماعتوں اور قائدین کی مشاورت بھی ضروری تھی، اور ان اتحادی جماعتوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کے لحاظ سے کابینہ میں حصہ دینا بھی ضروری تھا، اس طرح نون لیگ کے حصے میں 14، پیپلزپارٹی کے 11، جمعیت علمائے اسلام 4، ایم کیو ایم کو 2 وزارتیں دینے کا فیصلہ ہوا، اگرچہ اس فیصلے کے باوجود ابھی تک پیپلز پارٹی کے بھی تحفظات ہیں اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ن لیگ کے قائد نواز شریف سے ملنے لندن چلے گئے ہیں، جبکہ بلوچ راہنما اخترمینگل بھی ناراض ہیں اور کابینہ میں شامل نہیں ہوئے، جبکہ اے این پی نے بھی وزارت قبول کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ اگرچہ کابینہ کی تشکیل میں صوبائی کوٹہ دیکھنے کی روایت نہیں بلکہ صرف پارلیمانی پارٹیوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہی دیکھی جاتی ہے، البتہ ریاست کے کلیدی عہدوں پر تقرری کیلئے صوبائی کوٹہ کا خیال رکھا جاتا ہے، مگر اس وقت اگر صدر سابقہ حکمران پارٹی کے منتخب کردہ اور سندھ شہری علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے بعد اب وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی پنجاب سے لائے گئے ہیں، چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی ہوں گے یا فاروق نائیک، دونوں کا تعلق پنجاب سے ہے‘ جہاں تک وفاقی کابینہ کا تعلق ہے تو اس میں اگرچہ اکثریت پنجاب سے تعلق رکھنے والے نون لیگی ارکان پارلیمنٹ کی ہے، لیکن خیبر پختونخوا سے بھی نمایاں تعداد میں وزراء آگئے ہیں، سب سے اہم مسلم لیگ نون کے پی کے صدر امیر مقام اور جنرل سیکرٹری مرتضی جاوید عباسی ہیں، امیر مقام کو پہلے گورنر کے پی کے عہدے کی پیشکش کی گئی تھی، مگر اب ان کو وزیر اعظم کا مشیر مقرر کیا گیا ہے جن کا عہدہ وفاقی وزیر کا ہے، مرتضی جاوید عباسی کی ن لیگ کے ساتھ وابستگی دو نسلوں پر محیط ہے‘ ان دونوں رہنماؤں کے وفاقی کا بینہ میں آنے سے کارکنوں کو حوصلہ ملے گااگرچہ اتحادی حکومتوں میں مسائل چلتے رہتے ہیں لیکن شہبازشریف سے توقع ہے کہ وہ سب کو ساتھ رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے، انھوں نے اہم محکمے اتحادیوں کو دے کر فراخ دلی دکھائی ہے‘بہرحال عوام کو توقع ہے کہ نئی حکومت عوامی مفادات کے منصوبے جاری رکھے گی اور آئندہ بھی عام آدمی کی ریلیف کیلئے مزید اقدامات اٹھائے گی۔اگرچہ موجودہ حکومت ایک عبوری دور سے گزر رہی ہے اور اس کو جلدی نئے انتخات کرانے کا امتحان بھی درپیش ہے، لیکن عوام پرامید ہیں کہ شہباز شریف انتظامی تجربے سے مہنگائی پر کنٹرول پا لیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے وزیر خزانہ واشنگٹن پہنچ گئے ہیں جس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ روپے کی قدر مستحکم ہونے سے مہنگائی کو بھی قابو میں لانا آسان ہو جائے گادیکھا جائے تو موجودہ حکومت کے لئے کم وقت میں بہت اہم اور مشکل اہداف کے حصول کو ممکن بنانا ہے جو کسی بھی طرح آسان کام نہیں۔