وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ روز بلوچستان کے دورے پر گئے تھے، جہاں انہوں نے ایک شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے صوبے کے مجموعی مسائل پر روشنی ڈالی۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ صوبہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔گیس، کو ئلے یا سونے اور تانبے کے ذخائر بارے پاکستان کابچہ بچہ آگاہ ہے۔مگر ان وسائل سے استفادہ کیوں کر ہو گا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔سوئی کے گیس کے ذخائر کی پیداواری صلاحیت ملک کی ضرورت پوری نہیں کرتی، مگر متبادل ذرائع کی دریافت جس عدم توجہی کا شکار ہے، وہ بھی اہل وطن دیکھ رہے ہیں۔ ایک مدت سے بلوچستان کے آئل اینڈ گیس ریسورسز کی دریافت میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی طرح کوئلے اور دیگر معدنیات میں بھی کوئی نئی دریافت نہیں ہوئی. ہم درآمدی گیس اور کوئلے سے بجلی پیدا کرتے ہیں، مگر ملکی ذخائر کو ترقی دینے اور ان سے استفادہ کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہی ریکوڈیک کے سونے اور سینڈ ک کے تانبے کی بڑھتی ہوئی مانگ اور ملک میں تانبے کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ہر سال تانبے کی درآمدات پر اٹھنے والے اخراجات کے مقابلے میں یہ منافع محاورتاً مونگ پھلی کے چند دانوں کے برابر ہے۔ پھر بھی اس سے کچھ تو حاصل ہو رہا ہے۔ ریکوڈک منصوبہ تو دو قدم آگے اور چار قدم پیچھے جاتا رہا ہے،
ہماری یہ سونے کی کان طویل اور صبر آزما عدالتی جنگ اور بھاری اخراجات کے بعد اب مشکل سے ٹریک پر آئی ہے اور بیرک گولڈ اور پاکستان کی حکومت و بلوچستان میں نیا معاہدہ ہوا ہے، جس کی رو سے مذکورہ بین الاقوامی کمپنی ان ذخائر سے سونے اور تانبے کی کان کنی کی غرض سے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ یہ معاہدہ اسی سال مارچ میں ہوا ہے اور اب نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ معاہدے کو پٹری سے اترنے نہ دے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی رکاوٹ آنے دے۔ہمارے ملک میں ترقیاتی منصوبے یکساں رفتار کیوں برقرار نہیں رکھ پاتے، اس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہرحکومت ایسے منصوبوں کے بارے میں اپنی رائے رکھتی ہے۔ ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی پرانی حکومت کا منصوبہ نئی حکومت کی تبدیلی کے باوجود اسی رفتار سے جاری رہا ہو۔ موجودہ حکومت ماضی سے کتنی مختلف ثابت ہوتی ہے، اس کا اندازہ ریکوڈک منصوبے کو عملی صورت دینے سے لگایا جا سکے گا۔خوش قسمتی سے اس سلسلے میں اب پہلے سے بہتر کام ہو رہا ہے اور ماضی کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے جا رہے ہیں، مگر ابھی بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔