توانائی بحران، مستقل اور پائیدار حل کی ضرورت

ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے،ایک ہفتہ پہلے جو بحران 6 ہزار میگا واٹ کمی کے قریب تھا، اب ساڑھے سات ہزار میگا واٹ کی کمی تک پہنچ چکا ہے، ایندھن کی قلت اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر پاور پلانٹ کی بندش کو شارٹ فال کی بنیادی وجوہات بتایا جارہا ہے، یہ مسائل بھی یقینا موجود ہیں، مگر شعبہ جاتی بدنظمی اور بدانتظامی بھی ہمارے ہاں مسائل کی جڑ ہے، جب تک اس کا حل نہیں نکلتا، قومی وسائل سے بھرپور استفادہ ممکن نہیں۔ بجلی کے شعبے میں بڑا مسئلہ گردشی قرضے ہیں۔، بجلی گھروں کو ادائیگی نہ ہونا ملک میں بجلی کے بحران کا بنیادی سبب ہے،  اس کا حل جلد از جلد نکلنا چاہئے۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے، کوئی بقایاجات کے اس پہاڑ کے پیچھے نجی بجلی گھروں کے ساتھ معاہدوں میں پایا جانے والا سقم دیکھتی ہے، تو کوئی بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی کو اس کا سبب گردانتی ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ اب سبسڈی تو بس کہنے کی حد تک ہے، ورنہ پچھلے دو تین سال کے دوران توانائی کے نرخوں میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اور رعایت جو کبھی چھوٹے صارفین کو میسر تھی، کو ختم کردیا گیا، اس کے بعد سبسڈی یا رعایت کہاں باقی رہ جاتی ہے، البتہ بجلی کی چوری یا دوسرے لائن لاسز بہرحال موجود ہیں، اور اس حوالے سے کوئی قابل ذکر کام نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک لائن لاسز میں بہت نمایاں مقام پر ہے، اس طرح صارفین سے وصولی کے معاملے میں بھی مسائل موجود ہیں اور یہ اس وقت تک رہیں گے جب تک ٹرانسمیشن اور میٹرنگ کا نظام بہتر نہیں ہو جاتا ہے۔ صرف بجلی کے ٹیرف کو مسئلے کا سبب قرار دینا مناسب نہیں، اس سے نظام مزید عدم توازن کا شکار ہو گا اور مسائل بڑھتے جائیں گے۔
 گزشتہ دور حکومت میں سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد گردشی قرضوں کو کم کرنا تھا، حکومت کی تبدیلی کے باوجود اس منصوبے پر عمل بہت ضروری ہے، اور یہ معاملات پائیدار بنیاد پر اسی صورت حل ہو سکتے ہیں کہ اقتدار کی تبدیلی کے باوجود یہ ترجیحات میں شامل رہیں، واجبات کی عدم ادائیگی بجلی کے شعبے میں کس قدر مسائل کا سبب ہے، اس کے لیے یہی دیکھ لینا کافی ہے کہ سی پیک کے تحت کوئلے کے لگائے گئے بجلی گھروں کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں سے 1980 میگا واٹ کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ ان بجلی گھروں کو 300 ارب کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔ حکومت کو نجی شعبے کے بجلی گھروں کے ٹیرف اور واجبات کے نظام پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، درآمدی ایندھن سے پیدا ہونے والے تھرمل انرجی کے متبادل وسائل پر بھی توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ ماحول دوست توانائی سے بجلی کی مجموعی لاگت میں کمی آئے۔
 پن بجلی کے وسائل اس سلسلے میں بہترین ہیں، جن کی طرف وافر پیداواری امکان کے باوجود، ہماری حکومتوں کی توجہ نہیں جاتی، اس کا حل یہ ہے کہ ملک میں آبی ذخائر یا پن بجلی کے جو منصوبے جاری ہیں ان کو اپنی مقررہ مدت میں مکمل ہوں۔ واضح رہے کہ ہائیڈرو پاور منصوبے ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے، سارا زور ایل این جی اور درآمدی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھروں پر رہا، ان سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی اور ہمارے عوام کی قوت خرید میں نہیں، ان بجلی گھروں سے بجلی کی کمی کا مسئلہ تو شاید کم وقت میں حل ہوگیا، مگر قوت خرید میں کمی اور مہنگائی کے مسائل جوں کے توں ہیں،اب تو بجلی کے ساتھ ساتھ ڈیزل کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور یہ بھی فوری توجہ چاہتا ہے۔