ملک میں ایک بار پھر احتجاجوں کا دور شروع ہونے کو ہے ، تحریک انصاف نے رواں مئی کے آخر میںلانگ مارچ کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ دونوں طرف سے برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ کیونکہ اس وقت لگ ایسا رہا ہے کہ سیاست سے برداشت اور تحمل کی کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان کے ہر شہر میںہر پارٹی سے تعلق رکھے والے لوگ موجود ہیں ضروری ہے کہ یہ ایک دوسرے کی سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اگر آپ ایک پارٹی کا جلسہ خراب کرنے کی کوشش کریں گے تو کل کو آپ کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو پھر ظاہر ہے کہ ہنگامہ خیزی ہونی ہے اور اس سیاست کی فضا مسموم ہو گی جو کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہے خصوصاً یہ بات پاکستان کے حق میں نہیں ہے اور یاد رکھیں کہ ہماری ہستی کا ہونا اس ملک کے ہونے سے مشروط ہے ۔ اگر یہ ملک نہیں ہو گا تو ہم بھی نہیں ہوں گے جب بھی ذہن میں یہ خیال آئے کہ ہم کسی بھی طرح کی ہنگامہ خیزی اس ملک میں کریں گے تو اُس وقت کو یاد کر لیں کہ جب ہمارے بزرگوں نے یہ ملک حاصل کیا تھا اور پھر آج ہندوستان میں اقلیتوں کا حال زار بھی ملاحظہ کر لیں اور خالق کائنات کا شکر ادا کریں کہ آپ ایک ایسے ملک میں سانس لے رہے ہیں جو آپ کا اپنا ہے ۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی زندگی ہندو انتہا پسندوں نے اجیرن کر دی ہے اور مختلف بہانوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل جاری ہے جس کا ادراک عالمی اداروں کو بھی ہے اورانسانی حقوق کے حوالے سے بہت ساری تنظیموں نے جو رپورٹیں شائع کی ہیں ان کے مطابق بھارت میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام اقلیتوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اب بھارت کے مسلمانوں میں یہ احساس تیزی سے ابھرنے لگا ہے کہ پاکستان کا بننا برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں یہ ایسا ملک ہے جہاں مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق تو گزارتے ہی ہیں ساتھ اقلیتوں کو بھی پورے حقوق حاصل ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوری نظام وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوتا جائے گا اور اگر جمہوری حکومتوں کا تسلسل جاری رہے تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں پر سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کے درمیان تلخیاں بھی ختم ہو جائیں گی اس وقت یہ احساس بھی کافی ہے کہ ووٹ سے تبدیلی آتی ہے ۔ جہاں پر آپ کی رائے وقعت رکھتی ہے ۔ اگرسیاست میں اشتعال انگیزی داخل ہو جس طرح کہ آج کل ہورہا ہے تو پھر ' عوام ایسے لوگوں سے بدظن ہوں گے جو کسی بھی طرح مصلحت اور رواداری کی راہ نہیں اپنا لیتے۔ سیاسست تو نام ہی مصلحت اور ایک دوسرے کی رائے کو برداشت کرنے کی ہے ۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے ایسی رپورٹنگ سے گریز کریں جو سیاسی جماعتوں کے درمیان منافرت اور فاصلے بڑھانے کا باعث بنیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک رہے گا تو ہم سب کے معاملات چلتے رہیں گے ، سیاست بھی ہوتی رہے گی اور حکومتیں بھی آتی جاتی رہیں گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ جمہوری طریقوں سے ملک میں حکومتی کی تبدیلی کا عمل جاری رہے اور سیاست میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روش چل نکلے۔ ایسا کرنا سیاسی قائدین اور کارکنوں سب کیلئے ضروری ہے۔ خاص کر سیاسی قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کارکنوں کی تربیت پر پوری توجہ دیں۔ بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ملک کی سیاسی قیادت اہم امور پر متفق ہو اور عوامی مسائل کے حوالے سے تو یہ بہت ضروری ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب حال ہی میں رمضان کا مبارک مہینہ اختتام کو پہنچا ہے ۔یہ ایک تربیت کامہینہ تھا۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس مہینے کے گزرنے کے بعد ہمارے رویوں میں کیا تبدیلی آئی ہے ۔ یہ تحمل و برداشت کی تربیت کا مہینہ تھا ،ایک دوسرے کی دلجوئی کا مہینہ تھا، ایک دوسرے کی مدد کا مہینہ تھا۔اب ایک مہینے تک اگر ہم اس تربیت سے مستفید ہوئے تو ضروری یہ کہ اب ہم میں بڑی تبدیلی نظر آئے۔ معمول کی زندگی میں ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں دوسروں کی تکالیف کا احساس کریں اور ان کے لئے آسانیاں فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کریں اگر ہم اس طرح زندگی گزارنے کے قابل ہو گئے تو سمجھ لیں کہ ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔