معاشی حالات

گزشتہ دنوں اہل وطن کیلئے ایک اچھی خبر آئی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے جماعت اسلامی کی مختلف درخواستوں پر  فیصلہ سنا دیا ہے، جس میں حکومت سے کہا گیاہے کہ اگلے پانچ سال میں ملکی معیشت کو سود سے پاک کرے، فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے یکم جون 2022 سے سود لینے سے متعلق تمام قانونی شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے، اس موقع پر اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 1991 میں بھی سود پر پابندی کا فیصلہ دیا تھا، لیکن اس وقت کی حکومت نے سپریم کورٹ سے جاکر شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع لے لیا تھا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگرچہ وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو تمام قوانین درست کرنے  اور سود سے پاک معیشت استوار کرنے کے لئے پانچ سال دئیے ہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں یہ عمل جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بھی اس فیصلے کو سراہا ہے،  اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شکیل منیر کا اس فیصلے کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ قابل ستائش ہے، لیکن آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے اس پر عمل کرنا حکومت کیلئے مشکل ہوگا‘مستقبل میں اس حکم پر کس حد تک عمل درآمد ہو سکتا ہے۔
 اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک کی معاشی حالت ہے، جو بیرونی قرضوں پر کھڑی ہے اور اس کا انحصار بھی مزید قرضوں پر ہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ سعودی عرب بھی دراصل برادر اسلامی ملک سے مزید قرضوں کی درخواست کرنے کیلئے تھا‘ وزیراعظم کے وطن واپس آنے کے باوجود وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سعودی عرب میں رک گئے تھے‘ جہاں انہوں نے سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں‘پاکستان سعودی عرب سے دو ارب ڈالر، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے سٹیٹ بینک میں رکھنے کی غرض سے لینے کا خواہش مند ہے، جبکہ چار ارب ڈالر کے قرضوں کی توسیع کا بھی طلبگار ہے‘ اس وقت پاکستانی معیشت کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر ایک ہفتے میں 337 ملین ڈالر کم ہو گئے ہیں، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ریٹرن میں 145 بیسس پوانٹس کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ شرح سود میں فوری اضافہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 اس کا براہ راست اثر مہنگائی پر پڑے گا اور خدشہ ہے کہ مہنگائی کی شرح 15 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے، کاروباری حضرات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کو دی گئی سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘یہ صورتحال ملکی شرح نمو کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے،  برآمدات میں کمی آ سکتی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور ملکی سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، ان حالات میں مناسب ہوگا کہ پچھلی حکومت کے جن منصوبوں سے کاروباری حضرات مطمئن ہیں اور ان کے ملک پر مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں‘انہیں جاری رکھنے سے معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے، جبکہ معاشی پالیسی میں سیاسی اختلافات ملکی معیشت کیلئے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہی کامیابی اور معاشی استحکام کا راستہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے جو اقدامات ماضی میں کئے گئے ہیں یا جو اب کئے جا رہے ہیں ان کو نتیجہ خیز ہونے تک جاری رکھنا ملکی مفاد میں ہے۔