ملکی اور عالمی حالات، سیاسی سنجیدگی کے متقاضی

سیاسی بحران جو  اب تیسرے مہینے میں داخل ہوچکا ہے کے اثرات سیاست، معیشت اور معاشرت پر یکساں منفی ہیں اور وقت کے ساتھ ان کی منفی اثر انگیزی میں اضافہ ہوگا، عدم اعتماد کے نتیجے میں قائم ہونے والی موجودہ کثیر جماعتی وفاقی حکومت کیلئے اپوزیشن کی اکلوتی جماعت کا بیانیہ سیاسی اعتبار سے جو مشکلیں کھڑی کر رہا ہے، اس کے اثرات صرف سیاست تک محدود نہیں، اس سیاست کے زیر اثر سماج و معاشرہ جس تنا ؤکا شکار ہے، کوئی سیاسی رہنما اس طرف دیکھ ہی نہیں رہا اور یہ سب کچھ ان حالات میں ہو رہا ہے جب ملکی معیشت خوفناک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، داخلی اور خارجی منفی عوامل جو بدقسمتی سے اس دورانیے میں اکھٹے ہو چکے ہیں، اس کی مثال بھی ماضی میں نہیں ملتی، ایسے حالات دراصل قومی قیادت کی یکسوئی کے متقاضی ہوتے ہیں۔دنیا ان دنوں جس قسم کے حالات سے گزر رہی ہے، یہ وقت سیاسی افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا، مگر یہ افسوسناک اتفاق صرف پاکستانی سیاست میں نظر آرہا ہے کہ تحمل اور بردباری کو گویا دیس نکالا دے دیا گیا ہے، سیاسی رہنما اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکیں گے تو یہ ایک بھیانک غلطی ہے، جس کے اثرات دیرپا اور خوفناک ہوں گے، کیونکہ بدترین معاشی بد نظمی کے اثرات عوام کو سیاسی جماعتوں سے بدظن کردیں گے اور جب بھی انتخابات ہوئے، نتیجے میں بننے والی حکومت بھی سیاسی اعتبار سے ڈانواں ڈول اور ناپائیدار ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں مغالطوں سے نکل کر حقیقت کی سطح پر قدم رکھنے کے لیے خود کو آمادہ کریں، یہ طے ہے کہ جن سیاسی سوالات کو تنازعات کی بنیادی وجہ بنا لیا گیا ہے، ان کو حل ہونا چاہئے، مگر حل کی کوئی صورت اس وقت تک نہیں نکل سکتی جب تک حکومت اور اپوزیشن میں کسی ایک نکتے پر اتفاق رائے پیدا  نہیں ہو جاتا اور یہ اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے لازم ہے کہ فریقین میں مکالمہ ہو، سیاسی جماعتیں اگر اپنی سیاست، عوام اور ملکی مستقبل سے مخلص ہیں تو انہیں مکالمے سے گریز کی عادت کو ترک کرنا اور سلسلہ جنبانی کا آغاز کرنا ہوگا‘حالات جس نہج کو پہنچ چکے ہیں، کوئی بالاتر مصالحتی کوشش ضروری معلوم ہوتی ہے، سیاسی معاملات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا نتیجہ سیاسی بے چینی کے علاوہ سماجی انتشار اور معاشی عدم استحکام میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں ہوگا، معاشی ابتری کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جبکہ سماجی اثرات کی جھلک دیکھنی ہو تو سوشل میڈیا پر دیکھئے، ظاہر ہے کہ اگر متضاد آراء کا یہ طوفان سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ہے، تو یہ سماج کے اندر بھی موجود ہے، آخر کب تک اس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک عالمی حالات کا تعلق ہے تو یوکرین کی جنگ کے توانائی اور خوراک کی قیمتوں پر منفی اثرات کے بارے ہیں ورلڈ بینک متنبہ کر چکا ہے کہ 2024 تک دنیا ان اشیا ء کی مہنگائی کے زیر اثر رہے گی، یہ عالمی منظر نامہ ہمیں قومی اور سیاسی معاملات میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، خطرے کی گھنٹی پر متنبہ ہونا قومی مفادات کیلئے ناگزیر ہے،کیا کوئی ایسا ہے، جو حالات کی چاپ محسوس کرتے ہوئے سب کو ایک چھت کے نیچے اور ایک میز پر جمع کر سکے۔اگر کوشش کی جائے تو کوئی کام مشکل نہیں اس وقت اگرچہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے اور موجودہ حکومت اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے تاہم سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں زیادہ مناسب ہوگا کہ گفت و شنید اور بات چیت کا سلسلہ شروع ہو۔