گزشتہ دنوں ملک میں گرمی میں اضافے کے باعث شمالی علاقوں میں ایک منجمد جھیل شیشپر کے پگھلنے سے جو غیر متوقع اور اچانک سیلاب آیا ہے، اس سے شاہراہ قراقرم اور ہنزہ کے علاقے میں ایک پل بہہ گیا، جبکہ چین اور پاکستان کے درمیان رابطہ سڑک بھی بند ہوگئی، اس کے بعد بھی محکمہ موسمیات نے گرمی کی ایک اور شدید لہر سے خبردار کیا ہے، اس دوران درجہ حرارت معمول سے 8ڈگری تک بڑھ سکتا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے ہاں موسمی معاملات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، سال رواں ان تبدیلیوں کی شدت کا اندازہ مارچ میں ہی ہونا شروع ہو گیا تھا، جب دن کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ ہو گیا تھا اور گرمی اور سردی کے درمیان بہار کے جو چند ہفتے آتے تھے، نہیں آئے، اپریل میں موسم کی شدت میں اضافہ مزید ہو گیا اور اس ماہ میں جو معمول کی بارش ہوا کرتی تھی، وہ بھی نہیں ہوئی، محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال اپریل کے مہینے نے خشک سالی اور درجہ حرارت کے کئی ریکارڈ قائم کئے، معمول سے 74 فیصد کم بارشیں ہوئیں اور یہ 1961 کے بعد دوسرا خشک ترین مہینہ رہا، جبکہ درجہ حرارت کے اعتبار سے بھی یہ گرم ترین اپریل تھا۔
اس کے اثرات قراقرم کے برف زاروں سے لے کر دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پھیلے ہوئے تھے، ملک کے بالائی علاقوں میں برف پگھلنے کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ چکی ہے اور گلیشئیر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہوا ہے، حالیہ دنوں شیشپر گلیشیئر کی جھیل پھٹنے سے ہنزہ کے قریب کے علاقوں میں خطرناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے، مگر یہ معاملہ ایک شیشپر تک محدود نہیں، ماہرین کے مطابق ایسی 2500 کے قریب جھیلیں بن چکی ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اپریل میں شدید گرمی کی وجہ سے شیشپر جھیل کے رقبہ میں 40 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا، ظاہر ہے کہ حدت کے اثرات شیشپر تک محدود نہیں رہے ہونگے، دیگر 2500 جھیلوں کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا ہوگا، یہ صورتحال غیر معمولی تشویش کا باعث ہونی چاہئے، کیونکہ ہمالیہ کے سلسلے کے گلیشئیر ہمارے لئے پانی کا بہت بڑا محفوظ ذخیرہ ہیں، مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہر سال ان کی برف کے حجم میں کمی آرہی ہے۔
دوسری جانب خشک سالی کے منفی اثرات ملک بھر میں فصلوں اور آبی وسائل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں، صوبہ سندھ میں اس حوالے سے شدید صورتحال کی اطلاعات ہیں جہاں اس سال پانی کی دستیابی میں 50 فیصد کمی آئی ہے، جس سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس موسمی شدت کا اب سامنا کیا جارہا ہے، ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں، بارشوں کے دورانیے بڑی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں اور خشک سالی کے سلسلوں میں طوالت اور شدت آرہی ہے، جس سے ہمارے ملک میں فصلوں کے دورانیے اور زرعی پیداوار کا پورا چکر شدید قسم کے چیلنج سے گزر رہا ہے۔ موسمیاتی اعتبار سے ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں، چنانچہ ہمیں اس کے مطابق اپنے سسٹم کو ڈھالنے کی تیاری کرنی چاہئے۔
ان نئی حقیقتوں کو جتنا جلدی قبول کریں گے، موسمی خطرات سے نمٹنے میں اتنی ہی آسانی ہوگئی، موسمیاتی تبدیلیوں کو بہتر اقدامات کے ذریعے کنٹرول کرنا ہماری قدرتی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے شجرکاری، نئے جنگلات اور کاربن کے اخراج میں کمی جیسے اقدامات درکار ہیں، مگر ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے یہ صرف ہماری پیداکردہ آلودگی کا نتیجہ نہیں، چنانچہ اس کا تسلی بخش حل اجتماعی عالمی کوششوں سے ہی ممکن ہے، چنانچہ وہ بڑی صنعتی طاقتیں، جنہیں اپنی پیداواری سرگرمیاں اور معاشی نمو عزیز ہے، ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باب میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتیں، فی الوقت نظر نہیں آرہیں، سب کو صاف ستھرا اور محفوظ ماحول چاہئے مگر کوئی بھی اس کیلئے قربانی دینے کو تیار نہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے جیسے ممالک جن کا عالمی ماحولیاتی حدت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کی تباہی کے متاثرین میں سرفہرست ہیں، اور ماحول سے ان کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ اس موضوع پر سالانہ کانفرنسیں منعقد کروائی جائیں، یا تھنک ٹینکس کو فنڈ دے کر اس خطرے کے مطالعات پر مبنی رپورٹس تیار کروائی جاتی ہیں، ایسا ہونا بھی ضروری ہے، مگر جب تک عملی اقدامات نہیں کئے جاتے، ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے کیوں کر بچا جاسکتا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ چونکہ عالمی ذمہ داری ہے اس لئے وہ فریق جو اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں، ان کی ذمہ داریوں میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ عالمی ماحول کے تحفظ اور اس کی تباہ کاریوں سے متاثرہ ممالک کی مدد کیلئے رقوم مہیا کریں۔
بارہ سال پہلے کوپن ہیگن میں منعقدہ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی سربراہ کانفرنس (Cop 15) میں دولت مند ممالک کی جانب سے موسمیاتی اثرات سے بچا ؤکیلئے سالانہ 100ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوسکا، اور گزشتہ برس اکتوبر میں گلاسکو، برطانیہ میں ہونے والی عالمی موسمیاتی کانفرنس (COP 26) میں یہ مطالبہ اسی طرح موجود تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی جانب یہ غیرسنجیدگی باعث تشویش ہے اور اس کا خمیازہ ہمارے جیسے ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے، پاکستان اور موسمیاتی اعتبار سے متاثرہ ممالک کو اس غیر سنجیدگی پر مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہئے، کیونکہ بہرحال یہ ماحولیاتی تباہی ہمارا مشترکہ المیہ ہے، ملکی سطح پر اس معاملے میں سنجیدگی کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں بے اعتدال بارشوں اور درجہ حرارت کی شدت کیلئے بھی خود کو تیار رکھنا چاہئے اور ان حقائق کے تناظر میں اپنے رہن سہن، معیشت اور معاشرت کو ترتیب دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔