مشترکہ چیلنج 

ملک میں سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کے معیشت پر منفی اثرات روزبروز واضح ہوتے جا رہے ہیں، معیشت کے جتنے بھی اشاریے ہیں، اس وقت گراوٹ اور خسارے کی نشاندہی کر رہے ہیں، ایک ڈالر 192روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر دو ماہ کی درآمدات سے بھی کم سطح پر آ چکے ہیں، فی الحال آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط کے سوا ان ذخائر میں کسی بڑے اضافے کا امکان نظر نہیں آتا، سٹاک ایکسچینج بھی پانچ ماہ سے بدترین حالات سے گزر رہا ہے، جس کا اندازہ رواں ہفتے کے پہلے کاروباری روز کی شدید مندی سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جس میں 228 ارب روپے ڈوب گئے، یہ صورتحال کب تک رہتی ہے،کچھ کہنا مشکل ہے۔
ملک میں کئی بار سیاسی بحران کھڑے ہوئے مگر باہمی گفت و شنید اور مصالحانہ کوششوں سے نکلنے کی راہ نکل آئی اور اس وقت بھی ضرورت انہی کوششوں کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصر دنیا میں معیشت اور سیاست یکجان حقیقتیں ہیں، سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معیشت کا استحکام ممکن نہیں، جبکہ ناکام معیشت سیاسی بحرانوں کو دعوت دیتی ہے، سیاست اور معیشت میں توازن ہی ریاست میں پائیدار استحکام کا کلیہ ہے، ملکی حالات کو دیکھیں تو سیاست اور معیشت دونوں کو استحکام دینے کی ضرورت ہے۔
سیاست کی دنیا میں تو ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور افہام و تفہیم کا ماحول پروان چڑھانا ہی بہترین پالیسی ہے تاہم اس وقت کوئی دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، ظاہر ہے جب سیاسی رویہ ایسا ہو تو اس کے اثرات سے معیشت کو بچانا ممکن نہیں رہتا، چنانچہ اس سیاسی بحران کا فوری اور زوردار اثر معیشت پر پڑتا ہے۔ اگر قومی معیشت کو مزید بدحالی سے بچانا ہے، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہے اور قومی وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لانا ہے تو اس کا آغاز معیشت کی مرمت سے نہیں، سیاست میں ہم آہنگی کی کوششوں سے ہوگا۔
 سیاسی جماعتیں جب تک سیاست کے معیاری رموز اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق رویہ نہیں اپناتیں، ہمارے ملک میں سیاست اور معیشت کے بحران ختم نہیں ہو سکتے اور اس کے نتائج ہمیں کہاں لے جا سکتے ہیں، یہ اب کسی کیلئے بھی راز نہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک، جس کی درآمدات، برآمدات سے دوگنا سے زیادہ ہیں اور60فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں روزگار کے مواقع چاہیے، کیلئے معاشی نمو بنیادی ضرورت ہے، مگر ایک ایسا ملک، جس کی جی ڈی پی کی شرح نمو چار فیصد کے قریب ہے، کیا وہ اپنی 60 فیصد سے زائد نوجوان آبادی کے نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ اور ان لوگوں کو اگر معاشی سرگرمیوں میں نہ کھپایا گیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ان معاملات کو سمجھنے کیلئے بس ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ محض ووٹ لینے اور حکومت کرنے کا معاملہ نہیں، ملک کے معاشی استحکام اور سماجی بقا کا تقاضہ بھی ہے اور یہ کام کوئی حکومت اکیلے نہیں کر سکتی ملک کو اس بحران سے نکالنے کیلئے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے۔چنانچہ سیاسی قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا، سبھی سیاسی جماعتوں کو ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھا ہونا پڑے گا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس بحران سے کیسے نکالنا ہے‘ اب تک جو کچھ بھی ہوا، اب اسے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس بحران کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں اگرچہ بعض سیاسی جماعتوں کا کلیدی مطالبہ الیکشن کا انعقاد ہے مگر سیاسی طاقتیں جو پوزیشن لے چکی ہیں، لگتا نہیں کہ انتخابات بھی ان اختلافات کو حل کر سکیں ہمارے ہاں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی پہلے ہی روایت نہیں ہے اس مسئلے کا حل بھی ناگزیر ہے۔