وقت وقت کی بات 

بچپن کی بات تو چھوڑیں اس لئے کہ بچپن کس کو یاد ہے۔ اگر کوئی بچپن کی بات کرتابھی ہے تو ہمارے خیال میں وہ گپ ہی لگاتا ہے‘ اسلئے کہ یاد کرنے والی باتیں اوریا درہنے والی باتیں تو لڑکپن کی ہوتی ہیں لوگ ویسے ہی ان کو بچپن سے ملا لیتے ہیں‘ بچپن توبچپن ہوتا ہے اس میں کسی کو کیا پتہ کہ وہ کیسے گزرتا ہے اسلئے کہ یہ تو دوسروں کے سہارے جینے کا عرصہ ہوتا ہے ہاں جب لڑکپن میں داخل ہوتے ہیں تو اس پر کچھ حد تک توہمارا اپنا کنٹرول ہو جاتا ہے اور اس وقت کی کی گئی بے وقوفیاں البتہ یاد رہ جاتی ہیں اور اس کو دہرایابھی جاتا ہے اور اپنی ان حرکات پرہنسا بھی جا سکتا ہے اس لئے کہ وہ حرکات یادبھی رہتی ہیں اور سنائی بھی جا سکتی ہیں۔ ہم نے چونکہ دیہات میں آنکھ کھولی ہے اس لئے ہماری یاد میں مویشیوں کا پہاڑ اور میدان میں لے جا کر چرانا ان کے پیچھے دوڑنا اور ان کو لوگوں کی فصلوں میں نہ جانے دینا اور اگر چلے بھی جائیں تو ان کو جلدی جلدی وہاں سے نکالنا کہ مالک کی نظر ان پر نہ پڑے اور اگر فصل کا مالک دیکھ لے تو بھاگنے کی کوشش کرنا اور اگر پکڑے جائیں تو آرام سے مار کھا لینا وغیرہ

ایسی یادیں ہیں جو لڑ کپن میں پیش آتی ہیں اور وہ دیر تک بلکہ ساری عمر یاد رہتی ہیں اور اگر اُس جگہ سے کبھی گزر ہوتاہے تو یہ یادیں کچھ زیادہ ہی ستانا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس عمر میں انسان پرائمری اور ہائی سکول کے دن دہراتا ہے اس لئے اس دور کی یادیں تو عمر بھر ساتھ رہتی ہیں سکول میں بنائے گئے دوست اور ہم جماعت تو ساری عمر نہ بھولنے والی چیزیں ہوتی ہیں اس کے علاوہ سبق یا د نہ ہونے پرجو چھڑی سے ملاقاتیں ہوتی ہیں ان کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ہمارے ایک محترم استاد سبق یاد نہ ہونے پر مارتے تو نہیں تھے مگر اس قدر شرمندہ کر دیتے تھے کہ وہ شرمندگی چھڑی سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ ہوتی تھی‘ ہم تو خیر کلاس میں سب سے چھوٹے ہوتے تھے اس لئے اگر ہمیں مار پڑتی یا اُستاد محترم کی باتیں سننا پڑتیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر ہمارے ساتھ کچھ لڑکے بڑی عمر کے بھی تھے۔ اور ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ساتھ ایک لڑکا ساتویں کلاس میں تھا جو عمر میں کافی بڑا تھا‘ ایک دفعہ ہمارے فارسی کے استاد محترم جومارتے تو بہت کم تھے مگر باتوں باتوں میں شرمندہ بہت کرتے‘

انہوں نے ایک بڑی عمر کے لڑکے سے سوال کیا کہ اس فقرے کی فارسی بناؤ ”میرا باپ استاد ہے“ جس لڑکے سے پوچھا وہ ہماری کلاس کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔ اُس کے منہ سے اچانک نکلا  ”مائی فادر“ اس کا اتنا کہنا تھا کہ استاد صاحب نے ایسے طنزیہ فقرے چست کئے کہ وہ اُس لڑکے کا ہماری کلاس میں آخری دن تھا اور وہ سکول چھوڑ کر چلا گیا‘ اس کے بعد کا معلوم نہیں کہ اس نے مزید پڑھا یا تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا‘ اسکے علاوہ کچھ ایسے بھی پیارے اُستاد تھے کہ انہوں نے ہمیں ایساپڑھایا اور اس محبت سے پڑھایا کہ ہم اُن کے مضمون کے ہی ہو گئے‘ ہمارے ایک استاد محترم ہمیں نو یں جماعت میں ریاضی پڑھانے کو آئے‘ ان کا پڑھانے کاطریقہ اور ان کا پیار اس قدر تھا کہ ہم ساری عمر کیلئے ریاضی کے ہی ہو گئے‘ ایک اور بات کہ ہمارے جتنے بھی اساتذہ کرام تھے ہم ان کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے ور ان کا احترام آج بھی دل میں اسی طرح ہے کہ جیسے ہم اُن سے پڑھائی کے دوران کرتے تھے‘ہم آج کے شاگردوں اور اساتذہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے‘مجھے یاد ہے کہ ہم نے کبھی اپنے اساتذہ کے سامنے سرا ٹھا کے بات نہیں کی اور آج بھی جب اپنے سکول کے اساتذہ کرام سے ہماری ملاقات ہوتی ہے تو ان کے احترام میں ہم ذرابھی کمی نہیں آنے دیتے۔