بروقت فیصلوں کی ضرورت

سیاسی اور معاشی صورتحال پر مشاورت کیلئے حکومت اور اتحادی قیادت  کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس لندن میں مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کے فیصلوں پر غور وفکر کیلئے  بلایا گیا  تھاتاکہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاسکے کہ، قبل از وقت انتخابات کروائے جائیں یا مشکل اور سخت اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کا غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر مکمل پابندی کا فیصلہ اس حوالے سے اہم ہے کیونکہ   معاشی نقصان کی صورت میں اس کی بہت بھاری قیمت ادا کی جا رہی ہے‘ملک کی کرنسی کی قدر خوفناک حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ہر دن ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت جون 2020 کے بعد کم ترین سطح پر ہیں۔معیشت کی اس نازک صورت حال میں بروقت فیصلوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ معیشت پر بوجھ کی بنیادی وجہ کم آمدنی اور زیادہ اخراجات ہیں، آمدنی برآمدات سے ہوتی ہے۔اور برآمدی حجم میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں برآمدات 23 سے 25 ارب ڈالر کے درمیان رہیں یعنی دس سال میں حکومتی سطح پر تمام کوششوں اور اقدامات کے باوجود برآمدات میں صرف دو ارب ڈالر اضافہ ہوا اور 2021 میں 56 کروڑ 38 لاکھ ڈالر، جب کہ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں درآمدات کا حجم 65 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن کی یہ صورت حال ملکی معیشت کو کسی صورت مستحکم نہیں ہونے دیتی اور یہ گراف جس طرح بدستور اوپر جا رہا ہے اس سے معیشت میں بہتری کی امید کم اور خرابی کا اندیشہ زیادہ ہے،

کیونکہ اس خلا کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، قرضے بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں اور درآمدی حجم بھی مگر معاشی مسائل کے عوامل تجارتی خسارے تک محدود نہیں، بڑھتے ہوئے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور توانائی کے مہنگے وسائل کے اخراجات بھی ان میں شامل ہیں پائیدار حل کیلئے دیرپا اور جامع اقدامات کے بغیر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ موجودہ حکومت کے پیش نظر جو اقدامات ہیں ان سے ہو سکتا ہے کہ معاشی پگھلا ؤکا عمل وقتی طور پر سست ہو جائے، یہ ایسی صورتحال ہے، جب ایسی جامع اور دیرپا طویل مدتی پالیسی کو اپنایا جائے۔ ملکی پیداوار میں اضافہ جس کا محور ہو اس کے لیے وسیع سیاسی مشاورت کر لی جائے اور جن نکات پر اتفاق ہو، ان پر آنے والے کئی سال لگاتار عمل کیا جائے۔ ہمارا معاشی بحران عارضی اور وقتی اقدامات سے حل نہیں ہوگا یہ عارضہ دائمی ہے اور مستقل علاج کی ضرورت ہے۔۔ملک کا دوسرا بڑا چیلنج ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی حدت ہے جو ہماری زندگی اور معیشت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اگر فوری اور درست حل فراہم نہ کیا گیا تو پانی اور خوراک کی سکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں 90 فیصد پانی زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہوتا ہے دنیا میں فی ایکڑ پانی کی کھپت کے مقابلے میں یہ بہت زیادہ ہے کیونکہ کاشتکاری کے فرسودہ طریقوں سے پانی ضائع ہوتا ہے‘زرعی رجحانات کو جدید بنانے سے پانی کا استعمال کم ہو سکتا ہے اور پانی کی بچت کرکے آجکل جیسے قحط سالی کے حالات کیلئے پانی بچایا جا سکتا ہے مگر ایسی جامع منصوبوں پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی اور معاشی استحکام ہو اور سبھی شراکت دار اپنے اپنے کام پر توجہ مرکوز کریں۔ اس وقت ضرورت فوری فیصلوں اور ان پر جلد عمل کرنے کی ہے۔