امتحانات میں نقل کا رحجان 



ہماری طالب علمی کے دوران نقل سے پرچہ حل کرنے کوایک توطلباء بھی برا سمجھتے تھے اور دوسرا نگران اس قدر سختی کرتے تھےکہ کسی کی جرأت ہی نہیں ہوتی تھی کہ نقل سے پرچہ حل کرنے کا سوچے بھی‘سچی بات ہے ہم نقل کا کبھی سوچابھی نہیں تھا‘ ایک دفعہ ایساہوا کہ اپنے ایک سکول امتحان میں ہماری نشست ایک کھڑکی کے قریب تھی اور کھڑکی میں ایک کتا ب پڑی ہوئی تھی‘ جانے کس کی کتاب تھی اور کس مضمون کی کتا ب تھی مگر ہمارا یہ حال تھا کہ ہم سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا جا رہا تھا کہ مبادہا استاد جی یہ سمجھیں کہ میں نے کتاب نقل کیلئے رکھی ہے‘ آخر کار میں نے ایک استاد صاحب سے کہ جو نگرانی پر معمور تھے عرض کی کہ وہ یہ کتا ب یہاں سے اٹھا لیں‘ انہوں نے کتاب اٹھائی اور نگران کی میز پرجا کر رکھی تومیری جان میں جان آئی اور میں نے پوری توجہ سے جوابی کاپی پر پرچہ حل کرنا شروع کیا‘ ہمارے دور میں نقل کا رواج ہی نہیں تھا اگر کوئی لڑکا نقل کرتا ہو ا پکڑا جاتا تو پہلے تو اس کی وہیں پر مرمت کی جاتی اور پھر اس کو ممتحن کی میز کے ساتھ بٹھا دیا جاتا کہ وہاں پر پرچہ حل کرے اس پر جو شرمندگی اٹھانی پڑتی وہ نا قابل بیان ہے‘ اب تو لگتا ہے کہ بچے نقل کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘ اسی لئے جو کھیپ اب سامنے آرہی ہے وہ گریجوئیشن کے بعدبھی ان پڑھ ہی نظر آتی ہے‘ نقل سے آپ امتحان تو پاس کر جاتے ہیں مگر عملی طور پر آپ ان پڑھ ہی رہتے ہیں‘ ایسا انسان کہ جس نے نقل سے ہی امتحانات پاس کئے ہوں جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہ ایک ناکام انسان ثابت ہوتا ہے‘اسلئے کہ علم امتحان پاس کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنی زندگی پربھی نافذ کرناپڑتا ہے‘ اور اگر آپ نے صرف نقل کر کے ڈگری لی ہوتی ہے تو آپ کو عملی زندگی میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں‘ ہم اپنے لوکل امتحان میں بھی نقل کا نہیں سوچ سکتے تھے۔‘ اب تو دیکھا یہ گیاہے کہ لوگ سی ایس ایس کے امتحانات میں بھی نقل کرتے پکڑے جاتے ہیں حالانکہ یہ ایک ایسا امتحان ہوتا ہے کہ جس کے سوالات کا علم ہی نہیں ہو تا کہ کس طرح سے ہوں گے‘ مگر اس امتحان میں بھی لوگوں کو نقل کرتے پکڑ ا گیا ہے‘ اور یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ آپ ایک ایسا امتحان بھی نقل سے پاس کرنے کی کوشش کریں کہ جس کو پاس کرنے کے بعد آپ کے ہاتھ میں براہ راست قوم کی قسمت دے دی جاتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ایک تو سکولوں کالجوں میں نصا ب کی بجائے درسی کتب کا رواج ہو گیا ہے‘ ہمارے سکول کالج کے زمانے میں سلیبس کا رواج تھا‘ درسی کتب سے امتحان کا رواج صرف مڈل تک تھا‘ میٹرک میں نصاب سے سوالات دیئے جاتے تھے، ہر سکول اور کالج میں اپنی مرضی کی کتب بچوں کو پڑھائی جاتی تھیں جو سلیس کو کو ر کرتی تھیں اور ممتحن کی مرضی کہ جس بھی کتاب سے پرچہ بنا لے جو ہمارے لئے آؤٹ آف کورس نہیں ہوتا تھا‘ ہمارا آخری گروپ تھا کہ جس نے سلیبس سے سارے امتحانات پاس کئے‘ہمارے بعد کی کلاس میں نصابی کتب سے امتحانات لئے جانے لگے اور بورڈ اور یونیورسٹی نے کتابیں مخصوص کر دیں‘ہمارے دور میں بورڈ نہیں تھا اور میٹرک سے ایم اے ایم ایس سی تک کے امتحانات پشاور یونیورسٹی ہی لیاکرتی تھی‘ ہماری کوئی بھی مخصوص کتابیں نہیں تھیں ہمارے سکولوں اور کالجوں میں ہمارے اساتذہ کی مرضی تھی کہ جو بھی ٹیکسٹ بک ہمارے لئے بہتر سمجھتے اور وہ ہمارا پورا سلیبس کور کرتی‘ وہ ہمیں اسی سے پڑھا یا کرتے تھے۔