پاکستانی سائنسدانوں کا کارنامہ

پاکستان سائنسدانوں کا دنیا میں کوئی جواب نہیں اور آئے روز اب ان کے ایسے کارنامے سامنے آرہے ہیں کہ جن کودیکھتے ہوئے پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت کی داد دینا پڑتی ہے۔حال ہی میں پاکستانی سائنسدانوں نے بھنڈی سے کپڑا تیار کیا ہے۔ یہ ماحول دوست فیبرک سوت کے ساتھ شامل کر کے معیاری فیبرک بنانے کے کام آ سکتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیصل آباد کے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محسن نے اپنی ٹیم کے ساتھ اوکرا یا بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار کیا ہے، جسے کاٹن کے ساتھ شامل کر کے معیاری فیبرک تیار کیا جا سکتا ہے، جو ماحول دوست بھی ہے۔ 
پاکستانی تعلیمی اداروں  میں اگرچہ سائنسی تحقیق کے لیے سہولیات اور وسائل انتہائی کم ہیں تاہم اس کے با وجود آئے روز ملکی جامعات سے بین الاقوامی سطح کی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک کارنامہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیصل آباد کے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محسن نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سر انجام دیا۔ انہوں نے بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار کیا ہے۔غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کے دوران ڈاکٹر محسن  نے بتایا کہ اوکرا سے فیبرک کی تیاری کا آئیڈیا نیا نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس پر 2018 سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیا بھر بھنڈی کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر ہے۔
 ملک میں تقریبا 45 ہزار ایکڑ رقبے پر بھنڈی کاشت کی جاتی ہے، جس سے سالانہ 180 ملین کلوگرام بھنڈی پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کے تنوں سے پیدا ہونیوالا 335ملین کلوگرام فاضل مواد جلا دیا جاتا ہے‘ جس سے پاکستان  میں فضائی اور زمینی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ڈاکٹر محسن بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم کا آئیڈیا یہ تھا کہ اتنی بڑی مقدار میں ضائع ہو جانے والے مواد کو استعمال میں لایا جائے تا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جا سکے۔ 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اوکرا سٹیم کے فاضل مواد میں تقریبا 67.5 فیصد سیلولوز ہوتا ہے‘ جس سے بہت سی کارآمد اشیا تیار کی جا سکتی ہیں۔اس طرح اگر تونائی کے شعبے میں بھی کوشش کی جائے توایسی بہت سی ا جناس ہیں جن سے تیل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کی کمی کو بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ بائیوفیول کی اصطلاح اب نئی نہیں رہی اور اس شعبے میں بھی پاکستانی سائنسدانوں سے توقعات وابستہ کرنا غلط نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ 
اگر تیل پیدا کرنے والی اجناس کی نت نئی قسمیں سامنے لائی جائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سائنسدان انقلابی نتائج سامنے لائیں۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ جامعات کی سطح پر تحقیق کے شعبے کو مضبوط کرنا ہوگا اور طلبہ کو ہر ممکن سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ کیونکہ کم وسائل اور سہولیات کے باوجود اگر پاکستانی ماہرین اس طرح کی ایجادات کر سکتے ہیں تو پھر ان کو سہولیات اور مالی وسائل کی فراہمی کی صورت میں زیادہ اچھا کام سامنے آئے گا۔تاہم اس کیلئے حکومتی سطح پر موثر پالیسی اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔