دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اپریل سے جولائی کے دوران گھنے جنگلات میں آگ کا بھڑک اٹھنا اب معمول بن چکا ہے۔ جنگلات میں آگ عموما ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یا آسمانی بجلی گرنے سے لگتی ہے بلوچستان میں شیرانی اور ملحقہ علاقوں کے گھنے جنگلات میں گزشتہ کچھ دنوں سے شدید آگ لگی ہوئی ہے جو بلند پہاڑوں پر تیز ہوا کے باعث قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سرحد پر واقع کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں تقریبا 26 پزار ایکڑ کے رقبے پر گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جنھیں دنیا میں چلغوزے کے سب سے بڑے جنگلات میں سے ایک کہا جاتا ہے۔بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے شیرانی کے رہائشیوں کے مطابق یہ آگ آسمانی بجلی گرنے سے بھڑکی۔ مقامی افراد کے مطابق دو مقامات پر آگ شدید ہے۔ ان میں پہلا مقام تورغر ہے جہاں سے آگ پھیلی اور دوسرا مقام شیرانی میں غنڈ سر کا گھنا جنگل ہے جہاں پہاڑوں کی بلندی 5 ہزار فٹ تک ہے۔ وائلڈ فائرز پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم 'تھنک ہیزارڈ کے مطابق پاکستان اس خطے میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بلند درجہ حرارت جنگل میں آگ بھڑکانے میں 50 فیصد معاونت کرتا ہے
لیکن اس حوالے سے مقامی سطح پر تحقیق کا فقدان ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2003 سے 2018 کے دوران اسلام آباد میں واقع مارگلہ کی پہاڑیوں پر آتشزدگی سے 25،812،36 ایکڑ رقبے پر جنگلات جل کر خاکستر ہوئے۔ یہاں آگ عموما آسمانی بجلی گرنے یا بلند درجہ حرارت کی وجہ سے لگتی ہے مگر کبھی کبھار یہ انسانی کارستانی بھی ہوتی ہے۔اسی طرح کی ایک اور رپورٹ کے نتائج بتاتے ہیں کہ 1993 سے 2000 تک خیبر پختونخوا کے جنگلات میں بھی آگ لگنے کے کئی واقعات پیش آئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے سخت قوانین کی ضرورت ہے جس میں سخت سزائیں مقرر ہوں۔ آسٹریلیا میں از خود لگائی جانے والی جنگل کی آگ پر 21 برس تک قید کی سزا دی جاتی ہے جبکہ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق یہاں یہ سزا محض تین برس ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی کے باعث اس حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کہ جنگل کی آگ ماحول اور ایکو سسٹم کو کس طرح تباہ کر رہی ہے۔ لوگ معمولی جھگڑوں پر ایک دوسرے کے علاقے میں آگ لگا دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق جنگلات کی جو بائی پراڈکٹس ہیں جسے لاکھوں ٹن تنا، پتے، جھاڑیاں وغیرہ یہ جنگل کی آگ کو پھیلانے میں معاونت کرتے ہیں۔ انھیں ری سائیکل کر کے کارآمد اشیا بنائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں گھنے جنگلات والے علاقوں میں اگر اس کے لیے ری سائیکل پلانٹ بنا دیئے جائیں تو مقامی افراد کیلئے مزید روزگار کے علاوہ صوبائی سطح پر تجارت بڑھے گی اور جنگلات میں آتشزدگی کو روکنے میں بھی مدد ملے گی۔یعنی جنگلات کے حوالے سے عصری تقاضوں کے مطابق پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی۔