منکی پاکس‘ الرٹ جاری

کورونا وبا پر کامیابی حکمت عملی سے قابو پانے کے بعد اب صحت کے شعبے کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے ہدایت دی ہے کہ صحت عامہ سے منسلک تمام قومی و صوبائی حکام منکی پاکس کے مشتبہ متاثرین کی جانچ کیلئے ہائی الرٹ پر رہیں۔ جبکہ ایئرپورٹس سمیت داخلی راستوں پر مسافروں کی نگرانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔جاری کردہ الرٹ کے مطابق حفاظتی اقدامات کیلئے وقت پر تشخیص اہم ہے لہٰذا تمام سرکاری و نجی ہسپتال متاثرین کے علاج اور آئسولیشن (مریض کو تنہائی میں رکھنے)کے انتظامات کریں۔ این آئی ایچ نے یہ بھی وضاحت کی ہے فی الحال پاکستان میں منکی پاکس کا کوئی مصدقہ کیس موجود نہیں ہے۔
دوسری طرف وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز نے صوبے میں منکی پاکس کے پھیلا کے خدشے کے پیش نظر محکمہ صحت کو چوکس رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ منکی پوکس کے مرض سے بچا کیلئے ضروری احتیاطی تدابیر فی الفور اختیار کی جائیں۔ ائیر پورٹس پر مسافروں کی سکریننگ کا موثر میکنزم وضع کیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ افریقہ کے باہر منکی پاکس کے پھیلا ؤپر قابو پایا جاسکتا ہے اور عام طور پر افریقہ میں اس کے متاثرین کی تشخیص نہیں کی جاتی۔ برطانیہ میں اب تک منکی پاکس کے 56 متاثرین سامنے آئے ہیں۔اب تک منکی پاکس کے 100 سے زیادہ متاثرین سامنے آچکے ہیں جن کی جلد پر دانے نکلتے ہیں اور انھیں بخار کی شکایت ہوتی ہے۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں اس کے متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے۔افریقہ کے باہر اس وائرس کے اب تک 16 ملکوں میں متاثرین سامنے آئے ہیں۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کورونا وائرس کی طرح اتنی تیزی سے نہیں پھیلتا۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق یہ ایک نایاب وائرل انفیکشن ہے جو اثرات کے اعتبار سے عام طور پر ہلکا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ تر لوگ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔وائرس لوگوں کے درمیان آسانی سے نہیں پھیلتا اور اس لیے اس کا بڑے پیمانے پر پھیلا کے حوالے سے خطرہ بہت کم بتایا جاتا ہے۔
منکی پوکس کے لیے کوئی مخصوص ویکسین موجود نہیں ہے، لیکن چیچک کا ٹیکہ 85 فیصد تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ دونوں وائرس کافی ایک جیسے ہیں۔یہ بیماری منکی پاکس نامی وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے، جو چیچک جیسے وائرس کی شاخ میں سے ہے۔یہ زیادہ تر وسطی اور مغربی افریقی ممالک کے دور دراز علاقوں میں، ٹراپیکل بارش کے جنگلات کے قریب پایا جاتا ہے۔
اس وائرس کی دو اہم اقسام، مغربی افریقی اور وسطی افریقی ہیں۔برطانیہ میں متاثرہ مریضوں میں سے دو نے نائجیریا سے سفر کیا تھا، اس لیے امکان ہے کہ وہ مغربی افریقی قسم کے وائرس کا شکار ہیں، جو کا اثر عام طور پر ہلکا ہوتا ہے لیکن یہ ابھی تک غیر مصدقہ ہے۔ایک اور معاملہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن میں سامنے آیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں کسی مریض سے یہ وائرس منتقل ہوا ہے۔
مزید حالیہ معاملات کے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی معلوم روابط یا سفر کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ برطانیہ میں کمیونٹی میں پھیلنے سے ہوا ہے۔اس بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر میں درد، پٹھوں میں درد اور عام طور کسی بھی چیز کا دل نہ چاہنا شامل ہیں۔ایک بار جب بخار جاتا رہتا ہے تو جسم پر دانے آ سکتے ہیں جو اکثر چہرے پر شروع ہوتے ہیں، پھر جسم کے دوسرے حصوں، عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاں کے تلوے تک پھیل جاتے ہیں۔
منکی پاکس نامی بیماری ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اس لئے جس طرح ڈینگی کا تدارک کرنے کے لئے مچھروں سے بچاؤ کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے اسی طرح منکی پاکس سے بچاؤ میں بھی اولین مرحلے پر مچھروں سے بچاؤ اور ا ن کی افزائش کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کئے جاتے ہیں۔