کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کو ظالمانہ سزا 

معروف کشمیری حریت پسند رہنما اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کو بھارت کی ایک عدالت نے ایک جھوٹے مقدمے میں دو بار عمر قید  پانچ بار دس سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔  اس سے قبل بھارتی تحقیقاتی ادارے  این آئی اے  کی عدالت نے یک طرفہ ٹرائیل کے بعد 19مئی کو یاسین ملک کو اسی جھوٹے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔ گزشتہ سوا تین سال سے نئی دہلی کی بدنامِ زمانہ تہاڑجیل میں قید یاسین ملک کو کبھی بھی شفاف مقدمہ اور شنوائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ اوّل تو ان کا موقف ہی نہیں لیا جاتا تھا یا انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا اگر کبھی آن لائن پیشی کے دوران وہ بات کرنے کی کوشش کرتے تو ان کا مائیک بند کر دیا جاتا۔ گزشتہ روز بھی عدالت نے یاسین ملک کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کے  جواب دینے سے انکار کر دیا تھا، اور پہلے سے طے شدہ سزا سنا دی۔
عالمی شہرت یافتہ حریت پسند کشمیری رہنما کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی جانے سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور نظام انصاف کی قلعی کھل گئی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ دن بھارتی جمہوریت اور نظام انصاف کیلئے سیاہ دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت یاسین ملک کو جسمانی طور پرتو قید کر سکتا ہے، لیکن وہ اس آزادی کے تصور کو کبھی قید نہیں کر سکتا جس کی وہ علامت ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر حکومتی اور سیاسی رہنماؤں نے بھارت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور سزا کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی بھارتی عدالت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ سزا سنائے جانے سے قبل یاسین ملک نے عدالت سے استفسار کیا کہ اگر میں دہشت گرد تھا  تو بھارت کے سات وزرائے اعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے، اگر میں دہشتگرد تھا تو میرے خلاف چارج شیٹ فائل کیوں نہیں کی گئی، اگر میں دہشت گرد تھا تو واجپائی حکومت نے مجھے پاسپورٹ کیوں جاری کیا، اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے بھارت سمیت دیگر ملکوں میں اہم فورمز پر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟ 
عدالت نے یاسین ملک کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے انہیں نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے۔ عدالت میں یاسین ملک نے جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے، اس پر پوری  حریت قیادت اور تمام کشمیری فخر کر سکتے ہیں۔58سالہ یاسین ملک 15 سال کی عمر سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سرگرم ہیں اور متعدد بار جیل جاچکے ہیں۔ اس وقت اس فیصلے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں بھی اٹھانے کی ضرورت ہے‘ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند رکھی اور رائے عامہ کو بھارتی عزائم کے خلاف ہموار کیا۔
مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور پاکستان اس سلسلے میں تمام سفارتی اور سیاسی ذرائع استعمال کرتا ہے تاہم بین الاقوامی برادری کا رویہ اس ضمن میں ناقابل یقین ہے کیونکہ یہی ممالک دنیا میں کسی اور مقام پر معمولی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا واویلا مچانا شروع کر دیتے ہیں تاہم مقبوضہ وادی میں بھارتی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے اور انسانی حقوق کے یہ نام نہاد علمبردار مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ  عالمی برادری اس حوالے سے اپنے ماضی کے رویئے کی تلافی کرے اور بھارت پر واضح کیا جائے کہ وہ دنیا کے ممالک کے لئے تجارتی لحاظ سے اہم مارکیٹ تب ہی بن سکتا ہے جب وہ انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا ریکارڈ بہتر بنائے اگر امریکہ سمیت مغربی ممالک بھارت کا بائیکاٹ کریں اور اس شرط پر تجارت اور تعلقات استوار رکھیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق رائے دہی دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت گھٹنے ٹیک دے اور عالمی برادری کے سامنے جھک جائے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ بلاتاخیر بھارت کے ساتھ تعلقات کو انسانی حقوق میں بہتری لانے سے منسلک کیا جائے۔