معاملات اور مطالبات کی نوعیت جو بھی ہو، اظہاررائے اور احتجاج ایک آئینی حق ہے ساتھ ہی اس کے قانونی حدود بھی متعین ہیں۔ کسی بھی ملک میں جہاں جمہوریت ہو وہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اور جلسے جلوس اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ تاہم حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اہم ایشوز پر اتفاق رائے کا مظاہرہ بھی کریں جن میں ملکی معیشت کی بحالی شامل ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز سیاسی کشیدگی ایسے حالات میں بڑھی ہے جب معاشی بحران اور عدم استحکام کے اثرات بھی واضح ہیں۔یہ حالات ہرگز سیاسی انتشار کی اجازت نہیں دیتے، فی الوقت ساری توجہ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے پر مرکوز ہونی چاہئے، تاکہ سر پر منڈلاتے معاشی خطرات سے بچا یقینی بنایا جاسکے۔
سعودی عرب کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں اپنی تین ارب ڈالر کی ڈپازٹس کی مدت میں توسیع ان حالات میں پاکستان کیلئے ایک حوصلہ افزا فیصلہ ہے، جس سے شدید دباؤ کی شکار معیشت کے لئے راحت کا امکان پیدا ہوا ہے۔ حالات کے تناظر میں اس وقت جو فیصلہ ملک و قوم کے مفاد میں ہو اس پر تمام سیاسی قائدین کو متفق ہونا چاہئے۔کوئی ایسا معاملہ نہیں جو گفت و شنید سے حل نہ ہو اور جسے مل بیٹھ کر طے نہیں کیا جا سکے۔تاہم اسکے لئے ضروری ہے کہ دونوں طرف سے نرمی اور ایک دوسرے کیلئے برداشت اور تحمل کا جذبہ قائم رہے۔
اس میں کئی شک نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت ہر طرح کے چیلنجز سے عہدہ براہ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ماضی میں جب بھی ملک پر مشکل وقت آیا عوام اور سیاسی جماعتوں نے مل کر اس میں سے نکلنے کا راستہ نکالا ہے اور یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی فطری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت جس طرح کی معاشی مشکلات درپیش ہیں اس میں ہر کسی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر حکومت ہے جس نے غیر ضروری درآمدات پر پابندی عائد کی ہے تاکہ ملک میں قیمتی زرمبادلہ کی حفاظت کی جا سکے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔
اس طرح جہاں سے ممکن ہو حکو مت کو کفایت شعاری کی پالیسی پرعمل پیرا ہوکر عوام کیلئے نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ دوسری طرف ملک میں توانائی بحران بھی زوروں پر ہے اور ملک بھر میں لو ڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مسئلے کا بھی کوئی پائیدار حل نکالنا ضروری ہے۔ ایک بجلی کی پیدوار کے بڑے منصوبے ہیں جن کیلئے وقت بھی چاہئے اور سرمایہ بھی، دوسری طرف آسان حل ملک بھر میں شمسی توانائی سے گھر گھر استفادہ کرنے کے رجحان کو پروان چڑھانا ہے۔ اگر حکومت بڑے بڑے منصوبوں کے برابر رقم عوام کو سولر سسٹم پر لانے کیلئے خرچ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ منصوبہ زیادہ کارآمد ثابت ہو۔
ملک میں جس قدر قومی گرڈ پر بوجھ کم ہوتا جائیگا اس کے مقابلے میں بجلی کی کم پیدوار سے بھی ملک میں ترقی کا پہیہ چل سکے گا اور گھریلو صارفین اگر شمسی توانائی سے استفادہ کرنے لگیں تو صنعتوں کیلئے بجلی کی فروانی سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ یورپ کے کئی ممالک میں جہاں پاکستان کے مقابلے میں سورج کی روشنی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے وہاں بھی شمسی توانائی کے ذریعے گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس سے دیگر معمولات زندگی میں بھی کام لیا جاتا ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو قدرت نے اسے شمسی توانائی سے جس فراوانی سے نوازا ہے اس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔