درسی کتب

درسی کتب کی تیاری اور چھپائی حکومت نے یابورڈز نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس سے دیکھا گیا ہے کہ جو پہلے کا طریقہ تھا کہ مصنفین بورڈ یا یونیورسٹی کے سلیبس کے مطابق کتابیں لکھا کرتے تھے اور کالج اور سکول جس بھی مصنف کی کتاب کو اپنے طلباء کیلئے بہتر سمجھتے تھے اسے اپنے طلباء کیلئے منظور کر کے اُسے پڑھاتے تھے۔ اس طرح ایک مقابلے کا سا سماں بن جاتا تھا اور مصنفین اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے تھے کی سلیبس کے مطابق اپنی تالیفوں میں بہتر سے بہتر مواد رکھیں تاکہ اساتذہ اس کتا ب کواپنے طلبا ء کیلئے بہتر سمجھتے ہوئے اپنے سکول یاکالج میں طلباء کیلئے منتخب کریں۔ اس طرح بہتر سے بہتر کتا ب اساتذہ اپنے بچوں کو پڑھاتے اور ممتحن کی جس بھی کتاب سے مرضی ہو تی پرچہ بنا لیتا۔بات چونکہ سلیبس کی ہوتی تھی اس لئے کوئی بھی پرچے کو آ ؤٹ آف کورس نہیں کہہ سکتا تھا۔
 اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ بہترین سے بہترین کتا ب کو وہ بچوں کیلئے منتخب کرکے انہیں پڑھائیں اور جویونیورسٹی یا بورڈ کی طرف سے پرچہ دیا جاتا وہ چونکہ سلیبس کے مطابق ہوتا تھا اس لئے بچوں نے چونکہ بہترین کتابوں سے تیاری کی ہوتی تھی ہمیں یاد ہے کہ ہم پرچے کی تیاری کے لئے مختلف یونیورسٹیوں کی سابقہ پرچہ جات حل کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ خدا جانے ممتحن کون سی یونیورسٹی کے پرچہ سے سوال ہمارے لئے چن لے۔ اس طرح جو طالب علم پرچے کی تیاری کرتا تھا وہ ہر طرح کے سوالات کے جوابات دینے کو تیار ہوتا تھا۔ ہمارے طالب علمی کے وقتوں میں ٹیکسٹ بکس کا رواج (خصوصاً سائنس کے مضامین میں) نہیں تھا اس لئے ہمیں بہت سی کتابوں اور بہت سی یونیورسٹیوں کے سابقہ پرچوں کو کھنگا لنا پڑتا تھا۔ اور ہمارے وقتوں میں آؤٹ آف کورس کاکوئی سوال نہیں تھا۔ جوبھی سوال سلیبس کے مطابق تھا وہ کورس کا ہی تھا۔
 چونکہ ہر پرچے کی تیاری میں ہمیں بہت سی کتابوں اوربہت سی یونیورسٹیوں کے سابقہ پرچوں کو تیار کرنا ہوتا تھا اس لئے ایک تو ہمارے علم میں اضافہ ہی ہوتا تھا اور دوسرے ہم ہرطرح کے سوالات کے جوابات دینے کو تیار رہتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ جب ہم ایم ایس سی کے بعد کالج میں پڑھانے کیلئے گئے تو ہمیں کبھی کسی بھی طرح کی دقت کا سامنا نہیں رہا۔ ا ب چونکہ سلیس بھی محدود کر دیا گیا ہے اور اس کیلئے ڈگری کلاسز میں بھی ٹیکسٹ بکس آ گئی ہیں اس لئے ایک محدود علم ہی ایک طالب علم حاصل کر سکتا ہے‘ حالانکہ اگر آپ ایک مضمون میں گریجویشن کرتے ہیں تو اس مضمون کے ان اور آؤٹ کا آپ کو معلوم ہونا چاہئے۔ مگر چونکہ ڈگری کلاسز میں بھی ٹیکسٹ بکس کا رواج ہو گیا ہے اس لئے ایک گریجویٹ بچے کو ا س کے سلیبس سے باہر کا کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا حالانکہ گریجویٹ کا مطلب یہ ہوتاہے کہ آپ کو اپنے مضمون کے متعلق بہت کچھ معلوم ہوناچاہئے۔ ہمارے طالب علمی کے دور میں ڈگری کلاسز میں سوائے انگریزی کے یا اُردو کے باقی مضامین کی ٹیکسٹ بکس نہیں ہوتی تھیں بلکہ ریفرنس بکس ہوتی تھیں اور ہمیں پرچہ حل کرنے کیلئے بہت سی کتابوں اوربہت سی یونیورسٹیوں کے پرچوں کو کھنگالنا پڑتا تھا۔ کیا جانے کہ ممتحن کہاں سے سوالات پوچھ لے۔ اسیلئے ہمارے دور کے طالب علموں کے پاس ٹیکسٹ بکس کے سے بڑھ کر بھی بہت سا علم اس مضمون کے متعلق ہوتا تھا۔