ملک میں گندم کے ممکنہ بحران اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کے مقابلے میں کم پیداوار کے باعث زرعی معیشت کا دعویٰ کرنے والا ہمارا ملک گندم کا مستقل درآمدکنندہ بن چکا ہے۔ امریکی ادارہ زراعت کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں گندم کی فی کس سالانہ کھپت 124 کلوگرام ہے جبکہ حکومت پاکستان نے فی کس 115 کلوگرام کھپت کا تخمینہ لگایا ہے۔ اور اسی بنا پر گزشتہ برس اپریل میں یہ اعداد و شمار جاری کیے گئے تھے، کہ گندم کی سالانہ کھپت ساڑھے 29 ملین ٹن ہے۔ مگر ہماری پیداوار کبھی اس سطح تک نہیں پہنچ سکی۔ پچھلے دس برس کی سالانہ پیداوار ساڑھے 23 سے ساڑھے 27 ملین ٹن کے لگ بھگ رہی۔ یعنی اس دوران گندم کی ریکارڈ پیداوار والے سال بھی ملک کی ضرورت کے لئے تقریبا آ دھ ملین ٹن گندم کی کمی کا سامنا رہامگر ہر سال ایسا نہیں ہوتا کہ بمپر پیداوار حاصل ہو اور ایک سال پہلے کی پیداوار کا ریکارڈ ٹوٹ جائے، مثال کے طور پر گزشتہ سال ساڑھے 27 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی، مگر اس سال ساڑھے 25 ملین ٹن سے بھی کچھ کم رہی۔ اس صورتحال نے پاکستان کو باوجود ایک زرعی ملک ہونے کے، گندم کا مستقل درآمدکنندہ بنا دیا ہے، جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے2012 میں گندم کی درآمد 20 ملین ٹن تھی، 2015-19 کے دوران گندم کی درآمد دو ملین ٹن تک رہ گئی مگر 2020 میں گندم کی درآمد میں 36 ملین ٹن اضافہ ہوا۔ گذشتہ برس چونکہ پیداوار میں بہتری آئی تھی، اس لیے گندم کی درآمد 19 ملین ٹن رہ گئی مگر اس سال لگتا ہے کہ ایک بار پھر گندم کی درآمد 2020 والی سطح پر پہنچ جائے گی۔ اجناس اور غلے کی عالمی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ اور ہماری کرنسی کی قدر میں ریکارڈ کمی، گندم کی گزشتہ برسوں کی درآمدات اور حالیہ برس کی درآمدات میں بہت بڑا فرق پیدا کرے گی۔ یوکرین اور روس کے تنازعہ نے غلہ کی عالمی مارکیٹ کو شدید متاثر کیا ہے اور عالمی سطح پر سپلائی کی بے یقینی اور طلب میں اضافے کے باعث قیمتوں میں 60 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں جو گندم درآمد کی جائے گی‘اس کی قیمت کا بلند ہونا طے شدہ حقیقت ہے اس مہنگی ترین گندم کے ساتھ آٹے کی مارکیٹ کے نرخوں کو متوازن رکھنا بھاری سبسڈی کے بغیر ممکن نہیں۔ خوراک میں خودکفالت سے دوری کا یہ نتیجہ ہے، کہ ہر سال خوراک کے درآمدی بل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ کے دوران خوراک کی برآمدات تقریبا ساڑھے پندرہ فیصد اضافے کے ساتھ سات ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں مگر خوراک کی برآمدات اس کے مقابلے میں نصف بھی نہیں‘یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ کم خوراکی کا شکار ہے۔ ہمارا دعویٰ ایک زرعی معیشت کا ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے موسم اور زمین، زرعی مقاصد کیلئے بہترین ہیں مگر پیداوار میں اضافے کے بجائے کمی ہورہی ہے،زرعی مداخل کی فراہمی یقینی بنانے اور کاشتکاروں کی سرپرستی جیسے اقدامات کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے اوریہ صورتحال کسی ایک حکومت کے ساتھ مختص نہیں، ہر دور میں یہی رویہ نظر آتا ہے‘اسی لیے خوراک میں خودکفالت کی منزل دور ہوتی جا رہی ہے‘ اس وقت خوراک کے پیداواری شعبے کو جو بڑا خطرہ درپیش ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے وہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہے۔ یہ خطرات اچانک پیدا نہیں ہوئے،مگر اب ایک لحاظ سے اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں جو مستقبل میں خوراک کی پیداوار کو شدید متاثر کر سکتے ہیں۔