وزیراعظم شہباز شریف اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ 31 مئی کو ترکی پہنچے تھے‘جہاں صدر طیب اردگان اور حکومت کے دیگر عہدیداروں کے علاوہ تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کیں‘گزشتہ روز پاکستان ترکی بزنس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم ترکی سے دوطرفہ تجارت بڑھانے کیلئے سنجیدہ ہیں‘انہوں نے کہا کہ پاک ترک تجارتی تعلقات دونوں ممالک کے قریبی برادرانہ تعلقات کے حقیقی عکاس نہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو آئندہ تین برس میں پانچ ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے‘وزیراعظم کی خواہش قابل ستائش ہے، مگر ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری صرف اچھی خواہشات سے ممکن نہیں۔ پاک ترک دوطرفہ تجارت کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔
جن کا جواب تلاش کیے بغیر دو طرفہ تجارت میں نمو کی تمنا پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔پاک ترک دو طرفہ تجارت پچھلی ایک دہائی کی شماریات اور اس دوران دو طرفہ تجارت کا توازن جس تیزی سے ترکی کے حق میں گیا ہے‘یہ حیران کر دینے والا ہے۔ مثال کے طور پر 2009 میں ترکی کو پاکستانی برآمدات کا مالیاتی حجم 407 ملین ڈالر تھا، 2011 میں 756ملین ڈالر اور 13، 2012 کے دوران یہ 400 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہو گیا۔جبکہ ان برسوں میں ترکی سے درآمدات کا حجم ڈیڑھ سو ملین ڈالر کے قریب رہا مگر 2014 سے دوطرفہ تجارتی توازن میں حیران کن فرق سامنے آنا شروع ہوا‘پاکستانی برآمدات کا حجم ہر سال گھٹتا چلا گیا اور درآمدات بڑھتی گئیں 2018 تک تجارتی توازن کی حالت یہ ہو چکی تھی کہ پاکستانی برآمدات نو برس پہلے کے مقابلے میں نصف کے قریب رہ گئیں، جبکہ ترکی سے درآمدات میں قریبا دو گنا اضافہ ہوگیا۔
اس کے بعد کے برسوں میں تجارتی توازن ہمیشہ ترکی کے حق میں رہا۔2020 کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ترکی کو برآمدات 394 ملین ڈالر تھیں، اس کے مقابلے میں ترکی سے درآمدات 630 ملین ڈالر۔پچھلی ایک دہائی کے دوران دو طرفہ تجارت میں یہ حیران کن تبدیلی کیوں کر آئی اور اس کے پیچھے کون سے محرکات تھے، اس کا تعین کرنا ضروری ہے‘فی الوقت باہمی تجارت کا توازن فیصلہ کن حد تک ترکی کے حق میں ہے۔ اس ایک دہائی کے دوران ترکی پاکستان کو اپنی برآمدات ڈیڑھ سو ملین ڈالر سے بڑھا کر چھ سو ملین ڈالر تک لے آیا ہے، پاکستان کی دلچسپی ان سوالات میں ہونی چاہئے کہ اس عرصہ میں ہماری برآمدات ساڑھے چھ سو ملین، ساڑھے سات سو ملین ڈالر سے گھٹ کر 400ملین ڈالر تک کیسے آگئیں۔
کیا پاکستانی برآمدات کو ترکی میں معیار اور قیمتوں کی مسابقت کا سامنا ہے یا حکومتی سطح پر کوئی مشکلات درپیش ہیں، ان مسائل کو دور کرنا ہی پاکستان کی پہلی اور بنیادی دلچسپی ہونا چاہئے۔ باہمی تجارت کا ایسا ماڈل، جس میں پاکستان ترکی کی مصنوعات کی منڈی بن جائے اور دوطرفہ تجارتی عدم توازن بڑھتا جائے، پاکستان کے حق میں نہیں۔ اس خسارے کو کس طرح کم کرنا ہے، یہی حکومت کے تجارتی فروغ اور صنعتی ترقی کے ذمہ داران کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ جب وہ اس مسئلے پر غور کریں گے تو دیگر ممالک سے سہولتوں کا تقاضا کرنے کے علاوہ ان کی نظر ملکی سطح پر صنعتی معیار اور لاگت کے معاملات پر بھی جائیگی۔ہماری صنعت کو عالمی معیار قائم رکھنے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘جبکہ پیداوار کی لاگت کا سوال بھی درپیش ہے اور اب توانائی کی لاگت میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال ملکی برآمدی مصنوعات کیلئے ضرور مشکلات پیدا کریگی۔