کم ہوتی زرعی زمینیں 


پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘سچی بات کریں تو پاکستان کی معیشت کا بہت بڑا انحصار زراعت پر ہے‘ ہمیں زرمبادلہ دینے والی اشیاء مثلاً کپاس‘گندم‘چاول چینی وغیرہ زراعت سے ہی حاصل کردہ اشیاء ہیں‘اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو انڈسٹریل سٹیٹ بنانے کی بھی کوشش کی گئی تاکہ زرعی خام اجناس کو مزید ترقی دے کر زرمبادلہ کی مقدار میں اضافہ کیا جائے‘ زیادہ زورکپڑے کے کارخانوں پردیا گیا‘ اس لئے کہ کپاس پاکستان کے خام مال میں بہت بڑی مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح گنے کی پیداوار کی وجہ سے چینی کے بھی بہت سے کارخانے لگائے گئے اور ان کارخانوں کیلئے گنے کے کسانوں کیلئے گڑ کی پیداوار پر بھی پابندی لگائی گئی تاکہ چینی کی پیداوار زیادہ کرکے زیادہ زرمبادلہ حاصل کیاجائے‘ پاکستان کے اوائل میں چینی کا صرف ایک کارخانہ مردان میں تھا اور صوبہ اپنی گڑ کی وجہ سے بھی مشہور تھا‘پنجاب میں بھی گنا گڑ حاصل کرنے کیلئے استعمال ہوتا تھا جس کو بعد میں چینی کے کارخانوں کی وجہ سے محدود کر دیا گیا‘چاول کی بات کریں تو پنجاب میں پیدا ہونے والا باسمتی چاول دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے اور اس طرح کا خوشبودار چاول ہوتا ہے کہ جو کاشتکاروں کو بھی محدود استعمال کیلئے دیا جاتا ہے‘ یہ سارا چاول برآمد کیا جاتا ہے۔ اس طرح کپاس کی بھی ایک بڑی مقدار ایکسپورٹ ہوتی ہے‘ زمیندار اور کاشتکار کو دیکھیں تو وہ اپنی زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ زیرکاشت لانا چاہتا ہے‘ ہمارا خود تعلق ایک کاشتکار گھرانے سے ہے اور ہمیں یاد ہے کہ ہمارے بزرگ کھیتوں کے بنے کم سے کم رکھتے تھے تاکہ بنوں میں زمین نہ ضائع ہو۔ اگر ہم پرانی بستیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی بستیاں اونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں پر بناتے تھے تاکہ ہموار زمینوں کا زیادہ سے زیادہ رقبہ زیرکاشت لایا جائے اور زیادہ سے زیادہ خوراک حاصل کی جائے‘ایک زرعی ملک میں یہی کچھ ہوتا ہے کاشتکار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اسے زمین سے زیادہ غلہ حاصل ہو‘پرانی بستیوں کے کھنڈرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بستیاں عموماً ایسی زمینوں پر بنی ہیں کہ جو کاشتکاری کے لائق نہیں تھیں‘ٹیکسلا کے کھنڈرات کو دیکھا جائے تو یہ سارے کے سارے شہر پہاڑیوں پر بنے ہیں اور جتنی بھی ہموار زمین تھی اسے کاشتکاری کیلئے استعمال کیاجاتا تھا‘اونچی جگہوں پر بستیاں بنانے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ دشمن کے حملے کا اچھی طرح  مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ان بستیوں کی ایک امتیازی بات یہ تھی کہ راجہ یا گاؤں کے بڑے کا گھر پہاڑی کی چوٹی پر ہوتا تھا‘ یہ بھی دفاعی نقطہ نظر کی وجہ سے تھا۔ کہنے کا مطلب کہ کوئی بھی بستی اس طرح بسائی جاتی تھی کہ اس سے زرعی رقبہ متاثر نہ ہو اور دوسرے دفاعی لحاظ سے بھی بستی اچھی پوزیشن پر ہو‘ اب جو نیا نظام شروع کر دیا گیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ تو آبادی کا بے ہنگم بڑھاؤ ہے اور دوسرے طرز رہائش کو بہت زیادہ پرتعیش کر دیا گیا ہے‘ہر بندہ اپنے لئے اچھی سے اچھی رہائش چاہتا ہے  یوں ہم نے اپنی زراعت کا تیا پانچہ کردیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ کاشکاری کی زمینوں پر شہر آباد ہو گئے ہیں جس سے یہ نقصان ہواکہ ہم جو زرعی اجناس برآمد کر رہے تھے اب ہمیں وہی اشیاء درآمد کرنا پڑرہی ہیں‘جو ٹماٹر ہمیں کسی و قت دکاندار سبزی کیساتھ مفت دیدیا کرتا تھا وہ بھی سو روپے کلو تک پہنچا ہے‘اور اگر یہی صورتحال رہی تو لگتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد پاکستان زراعت سے فارغ ہو جائے گا اور ہمیں ساری زرعی اجناس درآمد کرنا پڑیں گی‘ ہرسال کپاس‘ گنے اور گندم کی پیداوار میں بیس سے چالیس فیصد تک کمی آ تی رہی ہے جس کے مستقبل میں خوفناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔