توہین آمیز بیان، بھارت مشکل میں 

پیغمبر اسلامؐ سے متعلق بھارت کی حکمران جماعت کے دو رہنماؤں کے توہین آمیز بیانات کے خلاف عالمی مذمت کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جس نے سفارتی محاذ پر بھارت کیلئے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔بھارت میں ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو سینئر اراکین کی جانب سے پیغمبر اسلام ؐسے متعلق اہانت آمیز بیانات کے خلاف عالمی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک 15 سے زائد ممالک سرکاری طور پر بیانات جاری کر کے اپنی ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کئی ملکوں نے بھارتی سفارت کاروں کو طلب کر کے شدید احتجاج بھی کیا ہے۔ گوکہ مودی حکومت نے بالخصوص خلیجی اور مسلم ملکوں کے غصے کو کم کرنے کی کوشش میں سرکاری طور پر ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ بھارت تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے تاہم بھارت کے ماضی کے دوغلے پن کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ بھارتی سفارت کاروں کے لیے بھارت کا دفاع کرنا عملا مشکل ہو رہا ہے۔
اب تک جن ملکوں نے اہانت پیغمبر اسلامؐ کے خلاف کھل کر بیانات دئیے ہیں ان میں پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، انڈونیشیا، عراق، ایران، اردن، لیبیا، کویت، قطر، بحرین، لیبیا، مالدیپ اور افغانستان شامل ہیں‘ ان میں سے بیشتر ممالک کے علاوہ 57 مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے بھی حکمران جماعت کے رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے بھارت سرکار سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی توہین کرنے پر بھارت کے خلاف دنیا بھر میں جس طرح کا سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور بعض ملکوں میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہو چکا ہے، اس کے بعد بھارت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ 
بھارت کو اس سے یہ جان لینا چاہئے کہ تقسیم کی سیاست کے بین الاقوامی مضمرات ہوتے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جس طرح منافرت کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے اس سے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب بھارت کو عالمی برداری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اجازت نہیں مل سکتی اور عالمی برادری جان گئی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت ابھارنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ 
بھارت میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزمات میں سر عام ہجوم تشدد کرکے مار ڈالتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے قابل احترام مقامات یعنی مساجد کی بے حرمتی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم موجودہ مذمتی لہر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب بھارت مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنا کر نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی پیغمبر اسلامؐ اور دین اسلام کی توہین کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔بھارت کے اندر بھی مسلمانوں نے جس طرح رد عمل دیا ہے اس سے بھارتی حکومت ہل گئی ہے۔اس تمام تناظر میں یہ امر اہم ہے کہ اسلامی ممالک نے اس معاملے میں بھارت کو آنکھیں دکھا کر اسے بتا دیا ہے کہ ایک طرف تو بھارت ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کے ذریعے اپنے فائدے کی طرف دیکھتا ہے تاہم دوسری طرف وہ مسلمانوں کی دل آزاری کا مسلسل ارتکاب کر رہا ہے جس کو اب معاف نہیں کیا جائیگا۔ بھارت میں جس طرح  کے حالات پروان چڑھے ہیں اس کا مسلمان ممالک کے ساتھ عالمی برادری نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔