زراعت کی زبوں حالی

کہنے کو توہمارا ملک زراعت پر انحصار کرنے والے ممالک میں سے ہے اور کل افرادی قوت کا تقریباً 44 فیصد حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے زراعت کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدن کا حصہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا لگ بھگ ایک چوتھائی ہے۔ زراعت کا ملکی ترقی اور خوشحالی میں بنیادی اور انتہائی اہم کردار ہونے کے باوجود یہ شعبہ  ہر دور میں نظر انداز رہا ہے اور تحقیق کے فقدان کے باعث اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ ملک کو کپاس دالیں اور دیگر زرعی اجناس کی درآمد پر ہر سال خطیر زرمبادلہ صرف کرنا پڑرہا ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں  عدم توجہی کے باعث زرعی شعبہ زوال پذیر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان زراعت کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے اس قدر ترقی کرتا کہ پوری دنیا میں اس کی زراعت صف اول میں شمار ہوتی۔وہ کھاد اور زرعی ادویات میں خود کفالت حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔پاکستان کھاد اور زرعی ادویات کی تیاری پر توجہ دے کر خطیر زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے  تاہم ان کو درآمد کرکے ہم کثیر زرمبادلہ سے ہر سال ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ساتھ ہی زراعت کے شعبے کی زبوں حالی سے براہ راست ایک بڑی آبادی متاثر ہوتی ہے جن میں کسان یعنی زراعت کی ریڑھ کی ہڈی بھی شامل ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ بعض علاقوں میں تو بہت سے کسان زمینوں کی کاشت سے الگ ہونے پر مجبور ہوگئے۔ متعدد علاقوں میں پانی کی قلت سے بھی زرعی پیداوار متاثر ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ پھلوں کی پیداوار بھی گھٹتی جا رہی ہے۔ ہرسال کینو کی برآمد  میں کمی آرہی ہے جو آموں کے بعد اہم برآمدی پھل ہے۔ اور ناکافی سہولیات کے باعث کینو کی پیداوار کا 30 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے جو ایک بہت بڑا ملکی نقصان ہے۔اسی طرح دودھ کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق اس کی پیداوار بڑھانے پر بھی مناسب توجہ نہیں دی جارہی جبکہ ہالینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک کو زرعی پیدوار نے ہی ترقی کے اس مقام پر پہنچایا ہے۔خبروں کے مطابق پنجاب میں ساہیوال کی نیلی راوی بھینس کا شمار دنیا کی اعلی نسل کی بھینسوں میں ہوتا ہے مگر اس کی پیداوار بڑھانے  میں کوئی خاطر خواہ کامیابی کا نہ ملنا افسوس ناک ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ  پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق بڑے ڈیم بنانے کی طرف بھی توجہ  دینے میں تاخیر برتی گئی ہے۔ اب بھی اگرحکومت ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دے تو اس سے نہ صرف بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے آئندہ برسوں میں آنے والے پانی کے بحران کے ممکنہ خطرے سے بھی نمٹنے میں آسانی رہے گی۔ بجلی اور پانی کی وافر فراہمی سے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبہ بھی ترقی کرے گا اور روز گار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ حکومت کو پٹرول کی درآمد پر جو خطیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے اس میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ضرورت درست منصوبہ بندی،خلوص نیت اور عزم کی ہے ، موجودہ حکومت نے ابتداء ہی سے کچھ مثبت اقدامات کئے ہیں جس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگر ان پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے تو اس کے دور رس اثرات کے حامل نتائج سامنے آسکتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے  کہ زراعت کا اس کی اہمیت کی مناسبت سے توجہ دی جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعت اپنی جگہ اہم ہے تاہم قدرت نے ہمیں جس فیاضی کے ساتھ موافق موسم، وافر مقدار میں وسائل اور زرخیز زمین سے نواز ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ زراعت کو توجہ دے کر ہی ہم وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جس کے بعد ہم درآمدات کی بجائے برآمدات میں اضافے کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔