غذائی قلت سے عالمی قحط پھیلنے کا خدشہ

عالمی بینک کے سربراہ کے مطابق افراط زر میں حالیہ اضافہ طویل عرصے تک بلند رہنے کا خدشہ ہے۔ ڈیوڈ مالپاس کے مطابق سرمایہ کاری میں کمی شرح نموکو ممکنہ طور پر ایک پوری دہائی تک متاثر رکھے گی۔ عالمی بینک نے رواں سال کیلئے اپنے شرح نمو کے تخمینے میں ایک فیصد سے زیادہ کمی کر دی ہے۔ بینک کے ماہرین نے ”اسٹیگ فلیشن“کے خطرے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، جو زیادہ افراط زر اور سست نمو کا مرکب ہے۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے کہا کہ بہت سے ممالک کیلئے کساد بازاری سے بچنا مشکل ہو گا۔عالمی بینک نے رواں سال شرح نمو میں 2.9 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس نے جنوری میں 2022 کے لئے شرح نمو میں 4.1 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی تھی۔ عالمی بینک نے آئندہ مالی سال یعنی 2023 اور 2024 کیلئے پیداواری شرح میں صرف تین فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی ہے۔ بینک کو توقع ہے کہ رواں سال تیل کی قیمتوں میں 42 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ توانائی سے ہٹ کر دیگر اشیا کی قیمتوں میں 18 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ 
عالمی بینک نے موجودہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کا موازنہ 1980 کی دہائی کے تیل کے بحران سے کیا ہے۔ گزشتہ روز جاری کی گئی اپنی نئی گلوبل اکنامک پراسپیکٹس رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اضافی منفی اعشاریے عالمی معیشت کی 1970 کی دہائی کے سٹیگ فلیشن کے دور کا تجربہ دہرانے کے امکانات میں اضافہ کریں گے۔ ڈیوڈ مالپاس کے مطابق دنیا کے بیشتر حصوں میں کمزور سرمایہ کاری کی وجہ سے شرح نمو کی سست رفتاری ممکنہ طور پر ایک پوری دہائی تک برقرار رہے گی۔مالپاس کا مزید کہنا تھا کہ اب بہت سے ممالک میں افراط زر کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ رسد میں آہستہ آہستہ اضافے کی توقع ہے، اس صورتحال کے باعث افراط زر لمبے عرصیتک بلند رہنے کا خدشہ ہے۔عالمی بنک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ، چین میں کووڈ لاک ڈاؤن اور سپلائی چین میں خلل سے عالمی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے توانائی اور گندم کی عالمی تجارت کو درہم برہم کر دیا اور کورونا وائرس وبا کے اثرات سے نجات پا رہی عالمی معیشت کو نشانہ بنایا۔ اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی قوت خرید متاثر ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔ ڈیوڈ مالپاس کے مطابق غذائی قلت کے نتیجے میں بھوک میں اضافے اور یہاں تک کے قحط پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔
عالمی بینک کے سربراہ نے تو معاشی وجوہات کی بناء پر قحط اور غذائی قلت کی بات کی ہے جو حقیقت بھی ہے تاہم اس سے قبل موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بھی غذائی قلت کے حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے خبردار کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی نے معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے خاص کر ان ممالک میں جہاں زراعت پر زیادہ انحصار کیا جارہا ہے۔ وطن عزیز بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیل کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں اور جہاں ایک طرف زرعی پیداوار میں کمی واضح طور پردیکھنے میں آرہی ہے وہاں پانی کی قلت بھی زراعت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اس حوالے سے اب موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ورنہ دیر ہوگئی تواس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں جن سے نمٹنا بعد ازاں اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوگا۔