آئی ایم ایف پروگرام نہ ملا تو ڈیفالٹ کر جائینگے، وزیر خزانہ

اسلام آباد: وزیرخزنہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ پر آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے،پیٹرول پر ٹیکس بڑھاتے ہیں تو وہ ہمارے جیب میں نہیں ملکی خزانے میں جاتاہے۔

 پاور سیکٹر کاکل خسارہ 16سو ارب ہوگیاہے جو دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے یہ ملک کولے ڈوبے گا،ملک میں زیرولوڈشیڈنگ نہیں کرسکتے کیوں کہ سپارٹ پر ایل این جی بہت مہنگی مل رہی ہے پہلے ہی59روپے فی یونٹ بنانے والے پلانٹس چلاناپڑرہے ہیں۔

،عمران خان نے ہمیں جیلوں میں ڈالنے کے بجائے کام کیاہوتاتو یہ حالات نہ ہوتے۔بجٹ بناتے ہوئے ڈالر کی کیاقیمت رکھی ہے یہ نہیں بتاسکتاہوں،مشکل فیصلے لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،ساری سرکاری کمپنیو ں کی نجکاری کریں گے۔

ٹیکس تھوڑا سا بڑھایاہے اس سے عوام کو تکلیف ہوگی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملا تو ڈیفالٹ کا خطرہ ہے پٹرول اس سال سستا نہیں ہوگیا،لیوی یا سیلز ٹیکس لگائینگے،تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ 2017 کے پے سکیل پر ہوگا اس کے بعد ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کرینگے اگر سری لنکا جیسا حال ہوا تو تاریخ معاف نہیں کریگی۔

ان خیالات کااظہاروزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وزیر اطلات مریم اورنگزیب اور وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیاتنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ درست فیصلہ ہے،مشکل وقت ہے اس میں بجٹ دیا ہے پاکستان مشکل گھڑی میں ہے 30سال میں اتنا مشکل وقت نہیں دیکھا حکومت کا نظام بدترہوگیا تھا اور مسائل بڑھا رہے ہیں۔

اس وقت جو حالات ہیں ایسے حالات کا پاکستان کو کبھی سامنا نہیں رہا،پاکستان میں اگلے مالی سال میں 1100 ارب روپے کی سبسڈی توانائی کے شعبے میں ہے، 500 ارب روپے گردشی قرضے کو کم کرنے کیلئے ہے،یہ 1600 ارب روپے کی کل سبسڈی بنتی ہے.

بجلی کی قیمتوں کے تعین کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے بجلی مہنگی ہے، ترسیلی نظام اور بد انتظامی کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوتی ہے۔16روپے حکومت فی یونٹ دیتی ہے یہ پیسے بھی عوام دیتی ہے 18روپے فی یونٹ عوام دیتی ہے۔کل 30روپے فی یونٹ پڑرہاہے۔پلانٹ بہت اچھے لگے ہیں مگر بجلی کی ترسیل میں مسائل ہیں یہ 16سو ارب کا نقصان ملک کو لے ڈوبے گا۔

یہ دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔گیس کے شعبے میں 400 ارب کی سبسڈی ہے اور گردشی قرضہ 1400 ارب روپے ہے، 2 ارب روپے ایس این جی پی ایل نے گزشتہ سال سردیوں میں نقصان کیا ہے، ایل این جی کی عدم خریداری کی وجہ سے گیس کے سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا،پی ایس او نے 500 ارب روپے کی وصولیاں کرنی ہیں۔پیٹرول کی سبسڈی لاکھوں روپے والا لے رہا ہوتا ہے۔اور دیتا 50ہزار روپے والا ہے۔

گیس اپنے کارخانوں کو بین الاقوامی ریٹس پر دیں گے۔وزیراعظم نے آئل کمپنیوں پر مزید ٹیکس لگانے کی ہدایت کی۔ایس این جی پی ایل میں 2سو ارب روپے کی گیس غائب ہورہی ہے۔ہمیں اس گیس کا پتہ نہیں کہ یہ کہاں جارہی ہے۔ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا جو خرچے برداشت نہیں کرسکتے وہ نہیں کرنے ہوں گے 

۔وزیراعظم عمران خان نے جو سبسڈی دی یہ اس طرح ہے جب بینک میں پیسے نہ ہوں اور چیک دے دیں اور اس کے بعد بیرون ملک بھاگ جائیں کراچی میں اس کو ٹوپی گھمانا کہتے ہیں۔مشکل فیصلے لیں گے اس وقت چوائس نہیں ہے کہ مشکل فیصلے نہ لیں۔

حکومت کی تین بڑی آئل کمپنیاں ہیں جن پر ٹیکس لگائیں گے تو حکومت ہی کو دینی پڑے گی، میں امریکہ اور دوحہ گیا ہوں صرف ایک ارب روپے ڈالر کی قسط کیلئے، یہاں اڑھائی ارب روپے کی گیس ہوا میں اڑا دیتے ہیں، سابقہ حکومت نے مارچ میں سبسڈی دی وہ آئی ایم ایف معاہدہ کے برخلاف تھی، پٹرول پر سبسڈی دے کر عمران خان نے بانس چیک دیا ہے، پیٹرول مہنگاکرتے ہیں تو پیسے گھر نہیں لے کر جاتے ہیں ملک کے خزانے میں جمع کرتے ہیں۔

اس سال پٹرول کی مدمیں 700ارب روپے جمع کریں گے۔انہوں نے کہاکہ پٹرول مہنگا ہوگا تو پیسے قوم پر ہی خرچ ہونگے،حکومت نے پاور اور گیس شعبے کی سبسڈی پر کٹ لگایا ہے،مفتاح اسماعیل نے کہاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رقم بڑھائی ہے۔خوردنی تیل کا بڑا مسئلہ ہے اس کہ قیمت بہت بڑ گئی ہے تیل کے بیجوں پر مراعات دے رہے ہیں۔ مکئی کینولے اور سرسوں سے تیل بناسکتے ہیں۔ٹیکس تھوڑا سا بڑھایاہے اس سے عوام کو تکلیف ہوگی۔ابھی بھی آئی ایم ایف خوش نہیں ہے۔انکم اور سیل ٹیکس کو فکس کردی 25لاکھ دکاندار کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ ان کو نظام میں لانے کے لیے بہت کم ٹیکس لے رہے ہیں۔ اب پیٹرول اور ڈیزل پر کوئی سبسڈی نہیں دیں گے۔

 ایک انٹرویومیں وزیر خزانہ نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق قیمتیں ہوں گی۔ انہوں نے کہاکہ جولائی کے مہینے میں نقصان میں نہیں جائیں گے، سبسڈی کو اس سال ختم کریں گے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ملا تو ڈیفالٹ کے علاوہ چارہ نہیں۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی اور سیلز ٹیکس دونوں کا آپشن ہے، دیکھیں گے کہ لیوی لگائیں یا سیلز ٹیکس۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مشکل فیصلوں کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے، یہ بجٹ بھی اس کی کڑی ہے، اس سال کے بجٹ میں 4 کھرب 598 ارب کا خسارہ آرہا ہے، تاریخ کے 4 بڑے بجٹ خسارے عمران خان کے دور حکومت میں ہوئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جس سال میں چھوڑ کر گیا تھا اس سال ہم نے 1499 ارب روپے قرجوں کی ادائیگی کی مد میں رکھے تھے، اس سال ہم نے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3 ہزار 950 ارب روپے کا تخمینہ رکھا ہے، یعنی آپ صرف قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 2500 ارب روپیہ اور دے رہے ہیں، یہ 2 دفاعی بجٹ کے برابر ہوگیا۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملک میں ہم 7 ہزار 4 ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے، نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار ارب ہوجائیگا، 4 ہزار ارب روپیہ ہم صوبوں کو دے دیں گے، قرضوں کی ادائیگی میں ہمیں 4 ہزار ارب دینا ہوگا، اس کے بعد صرف ایک ہزار ارب روپے رہ جائیں گے جس میں ہمیں حکومت بھی چلانی ہے، خوردنی تیل بہت مہنگا ہوگیا ہے اس لیے آئل سیڈز پر مراعات دے ہیں لیکن اس سال میں ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہوں گی۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایندھن پر سبسڈی دینا اب کوئی آپشن نہیں رہا کیونکہ اس سے بالآخر سود اور مہنگائی بڑھے گی جس سے قرض لینا مشکل ہو جائے گا۔انہوں نے واضح کیا کہ نئے بجٹ میں سابقہ فاٹا پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا البتہ گزشتہ حکومت نے 2018 میں ٹیکس لگایاگیا تو جو 2021 میں واپس لے لیا گیا۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ خسارے کو کم کرنے کیلئے مالیاتی پالیسی کو سخت کیا جائے گا، ہم نے پرسنل انکم ٹیکس کو کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن آئی ایم ایف خوش نہیں ہے وزیر اعظم نے کچھ تجاویز کو مسترد بھی کیا ہے اس لیے آئندہ 15 روز میں کچھ تبدیلیاں ہوں گی۔