میثاق معیشت کیلئے سیاسی استحکام ضروری

یہ کوئی ڈھکا چھپا امر نہیں کہ ملکی معیشت کا تعلق کسی ایک پارٹی  یا حکومت سے نہیں، بلکہ اس کا براہِ راست تعلق اندرونی و سیاسی استحکام سے ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں اس طرح کے معاملات پر ایک طرح کا قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے، اور حکومتوں کی تبدیلی اور شخصیات کے ادھر ادھر ہونے سے بنیادی قومی معاملات پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس اتفاق رائے کی وجہ سے ان ممالک کا سفر ایک واضح سمت میں آگے کی طرف بڑھتا رہتا ہے، اس کے برعکس جن اقوام نے اپنے باہمی اختلافات کو قومی مفاد پر ترجیح دی، وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی معاشی مسائل سے طے شدہ طریقہ اور قوانین کے مطابق نمٹنے کے بجائے غیر روایتی طریقوں سے پیچیدہ معاملات حل کرنے کی کوششوں میں لگی ہے،  بدقسمتی سے یہاں آنے والی حکومت کی اولین ترجیح قرضوں کا حصول اور انہی قرضوں سے امور حکومت سرانجام دینا رہی ہے۔
 کسی بھی دور حکومت میں مستقل بنیاد پر معاشی استحکام لانا سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہر شعبے میں خود کفیل ہونے کی بجائے بیرونی دنیا کے مرہون منت ہیں۔ 10 اپریل کو جب شہباز شریف وزارت عظمی کی مسند پر بیٹھے تو ڈالر 184 روپے کا تھا، جبکہ سٹاک مارکیٹ ایک ہی دن میں 667 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 44000 پر بند ہوئی تھی، آج ڈالر تقریبا دس فیصد مہنگا ہونے کے بعد 202 روپے جبکہ سٹاک مارکیٹ تنزلی کا شکار ہے، روپے کی قدر میں کمی اور سٹاک مارکیٹ میں مندی ریکارڈ پر ہے‘ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے، علاوہ ازیں معیشت کے فروغ اور ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے کچھ خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ آج پوری دنیا فوڈ سکیورٹی کا شکار ہے، ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بیشتر خوردنی اشیا درآمد کر رہے ہیں۔
 زراعت کے حوالے سے ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جن سے نہ صرف زراعت کے شعبے میں خود کفالت کی منزل حاصل کی جا سکے، بلکہ زرعی پیداوار میں بھی اضافہ کرکے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے۔ اس وقت آئی ٹی برآمدات کئی بڑے ملکوں کے جی ڈی پی کو بھی مات دے چکی ہے،  ہمیں آئی ٹی کے فروغ اور اس شعبے سے منسلک اشیا بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے، جن کی برآمدات سے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ بنگلہ دیش آج ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دنیا بھر میں ایک نمایاں برآمد کنندہ ہے، اس کی سالانہ ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 33 ارب ڈالر ہے، پاکستان میں بھی اس انڈسٹری کے حوالے سے بے شمار مواقع موجود ہیں، ہماری  ملکی برآمدات کا حجم 32.6 ڈالر جبکہ درآمدات کا حجم 70 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ برآمدات اور درآمدات کے اس فرق کی وجہ سے تجارتی خسارہ 36 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اگر حکومت ملکی معیشت کو دیرپا منصوبوں کے ذریعہ استحکام دینا اور قوم کو اس معاشی بحران سے نکالنا چاہتی ہے تو اسے زراعت، آئی ٹی، ٹیکسٹائل اور گھریلو صنعتوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی اضافے کی سبیل پیدا کرنی چاہئے، اگر تمام سیاسی جماعتیں معاشی استحکام کیلئے ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اس کے نتائج خوش کن ہو سکتے ہیں اور دور روس اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی شدید ضرورت ہے اور یہ اہم کام تمام جماعتوں کی مشترکہ کوششوں سے انجام پا سکتا ہے۔