اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتی ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999 میں ایک کنونشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنونشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے دنیا بھر میں حصول تعلیم کے بجائے مشقت پر مجبور بچوں کی تعداد میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث مزید اضافے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اس وقت سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور ہیں۔
یونیسیف کے مطابق کورونا کی عالمی وبا دنیا کے تقریبا سبھی خطوں اور ممالک کی معیشتوں کیلئے تباہ کن اثرات کی وجہ بنی۔ اس لیے عالمی سطح یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ مشقت پر مجبور وہ بچوں کی تعداد جنہیں اپنی عمر کے لحاظ سے تعلیم کیلئے سکولوں میں ہونا چاہئے تھا بڑھی ہے اور آئندہ مزید بڑھے گی۔بچوں کے اس امدادی ادارے کے مطابق کورونا کی وبا کے باعث رواں سال کے اختتام تک مختلف ممالک میں مزید نو ملین بچے مشقت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ بات اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سولہ کروڑ 160 ملین بچے تو پہلے ہی اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کیلئے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔یونیسیف نے یہ اعداد و شمار ہر سال بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے جاری کیے ہیں۔
اس سال یہ عالمی دن آج منایا جا رہا ہے۔کولون میں یہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے یونیسیف جرمنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیان شنائڈر نے بتایا کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث وہ پیش رفت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، جو اس وبا سے پہلے تک بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر دیکھنے میں آ چکی تھی۔کرسٹیان شنائڈر کا کہنا ہے کہ عالمی برادری نے اپنے لیے یہ ہدف طے کیا تھا کہ بچوں سے لی جانے والی مشقت 2025 میں ختم ہو جائے گی۔اب ہمیں اس ہدف کے حصول کیلئے اور بھی زیادہ توانائی سے کوششیں کرنا چاہئیں، ورنہ کورونا کی وبا کے اثرات کے سبب یہ ہدف ہماری پہنچ سے اس سے بھی زیادہ دور ہو جائے گا، جتنا وہ اب تک ہے۔یونیسیف جرمنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے مطابق دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے لیے تعلیم کے حصول اور مشقت سے تحفظ کیلئے نئے امکانات پیدا کریں۔
کاروباری اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ بچوں اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا پورا خیال رکھیں۔کرسٹیان شنائڈر نے کہاہم معاشرے میں صارفین کے طور پر اپنی زندگی کس طرح گزارتے ہیں اور کن سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس پہلو پر غور کرتے ہوئے ہم میں سے ہر کوئی اس عمل میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے کہ بچوں کے استحصال کا راستہ روکا جائے۔بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او اور اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی فنڈ یونیسیف دونوں کے اعداد و شمار کے مطابق 2000 سے لے کر 2016 تک محنت مزدوری پر مجبور کم سن لڑکوں اور لڑکیوں کی عالمی سطح پر تعداد واضح طور پر کم ہو کر 94 ملین رہ گئی تھی۔