قومی میزانیہ کسی بھی ملک کے آئندہ سال کے آمدنی و اخراجات کے تخمینوں کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے، جس کا زیادہ انحصار حالات پر ہوتا ہے، ہمارے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کے باوجود مخلوط حکومت نے اپنے بجٹ کا حجم سابقہ بجٹ سے زیادہ رکھا ہے، مالی سال 2022 کے مقابلے میں اس بجٹ کا حجم ایک ہزار ارب روپے زیادہ ہے، پچھلے بجٹ میں ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 5829 ارب روپے تھا، جسے بعد میں بڑھا کر 600 ارب کردیا گیا تھا، مگر موجودہ بجٹ میں ٹیکس ہدف 7004 ارب روپے ہے، گزشتہ بجٹ میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد تھا مگر اکنامک سروے کے مطابق شرح نمو 5.97 فیصد تک پہنچ چکی تھی، اس بجٹ میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 5 فیصد رکھا گیا ہے، جبکہ افراط زر کا تخمینہ سابقہ بجٹ میں 11 فیصد تھا، اس بجٹ میں 11.6 فیصد رکھا گیا۔ قرضوں پر سودکی ادائیگی کیلئے مختص رقم میں بھی 29 فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.
برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالر‘ رواں مالی سال کی برآمدات سے 5 ارب ڈالر زیادہ ہے، جبکہ درآمدات کے ہدف کو کم نہیں کیا گیا، ان شماریات کی روشنی میں حکومت اپنے اس بجٹ کو ضرور متاثر کن قرار دے سکتی ہے، اور یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ نچلے طبقے کو ریلیف دیا گیا اور زیادہ بوجھ اونچے طبقے پر ڈالا گیا، مگر کھانے کے تیل پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ اور پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور 30 روپے فی لیٹر لیوی کی وصولی ان اشیا ء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی، جس کا زیادہ بوجھ کم آمدنی والے طبقے پر پڑے گا۔ بجٹ کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور گندم، کینولا، سورج مکھی اور چاول کے بیج کی فروخت پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ زراعت کو ہم ملکی معیشت کو ریڑھ کی ہڈی تو قرار دیتے ہیں تاہم اس کی طرف خاطر توجہ کبھی نہیں دی۔
اب اگر اس سمت میں قدم اٹھایا گیا ہے تو یہ قابل ستائش ہے، ایک اور مثبت پہلو ملک میں ری نیو ایبل انرجی کے فروغ کیلئے سولر پینل کی فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ اور چھوٹے صارفین کو سولر انرجی سسٹم کیلئے بینکوں سے قرض دلوانے کا منصوبہ ہے، اس طرح سے تھرمل انرجی پر انحصار کم کیا جاسکتا ہے،اور اگر دیکھا جائے تو یہ اس بجٹ کا سب سے اہم پہلو ہے جس کی طرف بھر پور توجہ دی گئی ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب توانائی کے جدید ذرائع کو استعمال میں لایا جائے۔ اگر گھر گھر سولر بجلی سسٹم موجود ہو تو یقینا اس سے قومی گرڈ پر بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بجٹ کے اعداد و شمار اپنی جگہ،مگر اہداف کا حصول حکومت کیلئے اصل چیلنج ہے، خاص طور پر مہنگائی کو قابو کرنا اور شرح نمو بڑھانا، ان کے لئے حکومت کو بہت محنت کرنا ہوگی، حکومت کو اب تنقیدی سیاست اور ناکامیوں کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالنے کی روش ترک کر کے صحیح معنوں میں اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور پائیدار شرح نمو کیلئے پورے انہماک اور توجہ سے محنت کرنا ہوگی۔