یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے اور مہنگائی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے جس سے دنیا کی بہت سی معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں۔جون میں ڈیزل کی قیمت تاریخ میں اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور یہ مسئلہ اب پیٹرول سے بھی بڑا درد سر پیدا کر رہا ہے۔ماہرین کو تشویش ہے کہ اس کی قیمت میں اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ عالمی سطح پر ڈیزل کی قلت ہے اور مختصر مدت میں ان قیمتوں کو کم کرنا مشکل ہو گا۔کیونکہ ڈیزل زیادہ تر کارگو گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور ہماری خوراک، ادویات یہاں تک کہ وہ پیٹرول جو ہم سروس سٹیشنوں پر اپنی کاروں میں بھرتے ہیں ڈیزل سے چلنے والے ٹرکوں کے ذریعے ہی آتا ہے۔ یہی ڈیزل ٹرک سامان ان بحری جہازوں تک پہنچاتے ہیں جو پوری دنیا میں اس کی ترسیل کرتے ہیں۔بہت سی بسیں اور ٹرینیں بھی ڈیزل ہی استعمال کرتی ہیں اور یہ وہ ایندھن ہے جس پر صنعتیں انحصار کرتی ہیں چاہے وہ کھیتوں میں چلنے والا ٹریکٹر ہی کیوں نہ ہو۔اس وجہ سے ڈیزل کی کمی پوری دنیا میں سنگین مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اگر طلب رسد سے زیادہ ہوتی رہی تو قیمتیں اور بڑھنے کا خطرہ ہے۔اس ایندھن کی کمی سری لنکا، یمن اور کئی افریقی ممالک جیسی جگہوں پر ٹرانسپورٹ کے مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر ایکواڈور میں مقامی برادریوں اور کسانوں کی طرف سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔ایک اور خطہ جہاں بحران کے سبب تشویش پائی جاتی ہے وہ یورپ ہے۔دنیا کے دوسرے حصے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے برعکس یہاں پرائیویٹ کاروں کے بہت سے ڈرائیور ڈیزل کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے توانائی کا زیادہ موثراور کم آلودگی پھیلانے والا ذریعہ ہے۔روس کے یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے یورپ نے روس سے خام تیل کا تقریبا دو تہائی حصہ درآمد کیا جس کی ریفائننگ سے ڈیزل حاصل ہوتا ہے لیکن مغرب کی طرف سے ماسکو پر عائد اقتصادی پابندیوں کے بعد یورپ اپنے ڈیزل کیلئے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کر رہا ہے۔ڈیزل کے غائب ہونے کی واحد وجہ روسی حملہ نہیں۔ اس سے پہلے فروری کے آخر میں ڈیزل کی عالمی طلب پہلے ہی سپلائی سے زیادہ ہو گئی تھی۔ماہرین کے مطابق اس عدم مطابقت کی سب سے بڑی وجہ کورونا وائرس کی وبا تھی۔
ماہرین کے مطابق ڈیزل کی عالمی قلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ معاشی سائیکل اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے اور پیداوار کے مطابق کھپت کو واپس لانے کیلئے سست ترقی یا یہاں تک کہ کساد بازاری کا دور یقینی ہے۔رواں ہفتے پیش ہونے والی ورلڈ بینک کی تازہ ترین اقتصادی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ترقی میں تیزی سے سست روی دیکھی جا رہی ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ اس سے جمود پیدا ہو سکتا ہے جس میں ایک طرف کم اقتصادی نمو ہوتی ہے تو دوسری طرف مہنگائی بلند سطح پر ہوتی ہے۔ورلڈ بینک گروپ کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے 7 جون کو رپورٹ کا اجرا کرتے وقت کہا کئی ممالک کیلئے کساد بازاری سے بچنا مشکل ہو گا۔ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ 2022 میں عالمی معیشت کی نمو 2.9 فیصد رہے گی، جو کہ 2021 میں پہنچی ہوئی شرح کا نصف ہے۔اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم نے اس سال کیلئے اپنی عالمی اقتصادی ترقی کی پیشگوئی کو ساڑھے چار فیصد سے کم کر کے تین فیصد کر دیا اور تخمینہ لگایا کہ اس کے 37 رکن ممالک میں اوسطاً سالانہ شرحِ مہنگائی ساڑھے آٹھ فیصد رہے گی۔پاکستان پر بھی ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں کیونکہ زراعت کے شعبے میں اس کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اور ڈیزل کی قلت سے زرعی پیداوار کی لاگت اضافہ ہوگا۔