ہاتھی کے پاؤں 

سکھوں کے حملے ہزارہ پر جاری تھے جب تک ان کے حملے ہزارہ کے میدانی علاقوں میں تھے تو ان کو کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں مگر جیسے ہی وہ پہاڑی علاقے میں داخل ہوئے تو ایک تو سکھ فوجیں ایسے علاقوں میں لڑائی کی عادی نہیں تھیں دوسرے یہاں کے رہاشی اپنے علاقے کے دفاع کے لئے کمر کسے ہوئے تھے اس لئے جو بھی حملہ یہ لوگ گلیات وغیرہ میں کرتے تو مار کھاتے اس لئے کہ پہاڑی علاقوں کیلئے سکھ فوجیں عادی نہیں تھیں اور یہاں کے باسی تو اپنی زمین کے چپے چپے سے واقف تھے اس لئے ہر بار سکھ فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹتی رہتیں جب بھی سکھ فوجیں پہاڑی علاقوں سے مار کھا کر پسپا ہوتیں تو سکھ کمانڈر اپنی فوج کو حکم دیتے کہ مونن کو گھیر لو‘ مونن ہری پورکے پڑوس میں ایک گاؤں ہے یہا ں کی آبادی لڑائی وغیرہ سے اتنی عادی نہ تھی اس لئے ہا ر جاتے اور سکھ جب بھی ما رکھا کر پسپا ہوتے تو سکھ کمانڈر حکم دیتے کہا ”مونن کو گھیر لو“ ان کے ا س عمل سے ہندکو میں یہ محاورہ ہی بن گیا کہ جب بھی کوئی کام نہ ہو سکے تو کہتے ہیں کہ ”مونن نوں کہیر لو“ آج کی دنیا میں قدرت نے ایک ایسی چیز حکومتوں کو دے دی ہے کہ جب بھی حکومت اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تو اُسے زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے‘ بس اتنا کافی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دو اس لئے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتی‘ حکومت آسانی سے کہہ دیتی ہے کہ چونکہ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اس لئے ہماری مجبوری ہے کہ ہم اس میں اضافہ کریں یہ ایک ایسا عنصر ہے کہ جس کی قیمت میں اضا فہ ساری اشیائے صرف میں اضافے کا سبب بنتا ہے‘اس لئے اس کی قیمت کے اضافے پر کوئی بھی سڑکوں پر نہیں نکل سکتا اور جونہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی تمام اشیائے صر ف میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ اس اضافے پربھی کوئی آواز نہیں اٹھا تا اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ جونہی تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹرانسپور ٹ کے کرایوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے کہ اشیائے ضروریہ کی نقل و حمل میں تیل ایک بنیادی شے ہے اس لئے جونہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس اضافے کو عوام بخوشی قبول کر لیتی ہے اور اس طرح اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ عوام جانتی ہے کہ جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے کہ جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے اس لئے کرایوں میں اضافہ ایک قدرتی امر ہے اور جب ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہو گا توظاہر ہے کہ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں پربھی یہ اضافہ اثر اندا ز ہو گا چنانچہ جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کو عوام کھلے دل سے قبول کر لیتی ہے‘ اس لئے کہ عوام جانتی ہے کہ جو چیز ہمارے ملک کی پیداوار نہیں ہے تو اس کی قیمتوں کا تعین بھی ہماری حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے چنانچہ عوام اس اضافے کو کھلے دل سے قبول کر لیتی ہے۔ در اصل تیل وہ عنصر ہے کہ جو ہاتھی کا پاؤں ہے اور ہر شے کا پاؤں اس کے پاؤں میں ہے۔ جب تک پٹرول ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا یعنی ہمارے ملک میں ا سکے ذخائر کی تلاش نہیں ہوتی ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہیگا۔ تیل کے ذخائر ہمارے ہاں بھی کم نہیں مگر یہاں ہمارے ماہرین اکنامکس آڑے آ جاتے ہیں جن کا خیال ہے کہ ہم اگر پٹرولیم کی تلاش اپنے ملک میں کرتے ہیں تو وہ ہمیں درآمدی تیل سے مہنگا پڑتا ہے اس لئے اپنے ملک میں تیل کی تلاش کو پیٹھ پیچھے رکھ دیا گیا ہے۔