قدرت نے وطن عزیز کو جس فراوانی سے دریاؤں اور جھیلوں سے نوازا ہے، اس کی ہم نے قدر نہیں کی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دریا ؤں میں جہاں پانی کی کمی دیکھنے میں آرہی ہے وہاں اس میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دریا انسانی زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں، مگر اس بنیادی حقیقت سے آگہی سب کو نہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ ہمارے دریا اور نہریں گندگی، آلائش اور آلودگی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔صاف و شفاف دریاؤں کو جہاں کارخانوں کے فضلات آلودہ کر رہے ہیں وہاں عام لوگوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور ندیوں دریاؤں کو کچرے کو ٹھکانے لگانے کیلئے مخصوص کیا ہے۔دریاؤں میں گندگی نظر آنا، صرف بدنما منظر نہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر ہمارے پینے کے پانی کی تباہی اور فطری حیات کی زندگیوں کو خطرات کی بھی آئینہ دار ہے۔ یہ معاملہ اتنا سنجیدہ، حساس اور پیچیدہ ہے کہ کسی گلی میں پھینکا جانے والا کچرہ بھی بالآخر دریاؤں اور نہروں میں پہنچنے والے کوڑاکرکٹ کا حصہ بنتا ہے۔
ہم جلدی میں قریبی ندی میں کچرہ پھینکتے ہیں وہ چھوٹی ندی سے بڑی ندی، اور بالاخر دریاؤں میں پہنچ جاتا ہے۔شہروں، قصبوں اور دیہات میں قریب تمام انسانی آبادی دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتی ہے۔ ہمارے گھروں کے نلوں تک پانی پہنچنے سے قبل تاہم صفائی کے عمل سے گزرتا ہے۔ تاہم اگر ہمارے دریا آلودہ رہے، تو پھر پانی کبھی اتنا صاف نہیں ہو پائے گا کہ اسے انسانی ضروریات کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے دریائی نظاموں کی حفاظت کریں اور انہیں آلودگی سے بچائیں، تاکہ ہمارے گھروں کے نلوں تک پانی پہنچتا رہے۔دریا سینکڑوں جانوروں اور دیگر حیات کی آماجگاہ ہیں۔
گو کہ دریاؤں میں بسنے والی آبی حیات کی زیادہ تر اقسام ان دریاؤں میں بہائے جانے والے کچرے، کوڑے، زہریلے مواد اور کیمیائی مادوں کی وجہ سے پہلے ہی بقا کے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان میں کچھ حیاتی انواع ایسی ہیں، جنہیں شاید اب صرف اس صورت میں بچایا جا سکتا ہے کہ جب ہم اپنے دریاؤں کو صاف کریں۔اس کے ساتھ ساتھ صاف اور صحت مند دریات انسانی صحت کو لاحق خطرات کو کم اور معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار کے حامل ہیں۔ دریاؤں کے کناروں پر کم گندگی اور فطرت کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں میں کمی سے، یہ کنارے صاف اور محفوظ گزرگاہیں اور واکنگ ٹریکس میں تبدیل ہوتے ہیں، جہاں لوگ چل سکتے ہیں اور اپنی صحت بہتر بنا سکتے ہیں۔
صاف ستھرے کناروں اور صحت مند سرگرمیوں کے ذریعے سیاحوں کو بھی ان علاقوں کی جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے، جو اس علاقے کے باسیوں کی اقتصادی حالت کی بہتری میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔دریاؤں کو شہری کوڑاکرکٹ اور پلاسٹک کے علاوہ صنعتوں کی جانب سے بہائے جانے والے فضلے سے بھی شدید خطرات ہیں۔ صنعتی فضلہ ایسے کیمیائی مادوں کا حامل ہوتا ہے، جو نہ صرف پانی کو ناقابل استعمال بنا دیتے ہیں بلکہ اس پانی پر انحصار کرنے والی تمام تر آبی و جنگلی حیات کی بقا کو بھی خطرات سے دوچار کر دیتے ہیں۔ پھر یہ صنعتی فضلہ آسانی سے پانی سے الگ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صنعتی فضلے کو پانی میں بہانے کی بجائے خصوصی طریقوں سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے، تاکہ وہ دریاؤں، نہروں یا زیرزمین پانی کی تباہی کا باعث نہ بنے۔دریا ایک قومی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت کرنا اور آلودگی سے بچانا بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح جنگلات معدنی وسائل اور دیگر قومی اثاثوں کو بچانا۔ تاہم بدقسمتی سے ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کر رہے کہ ہم اس قیمتی اور نایاب دولت کو کیسے ضائع کر رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشکلات بڑھا رہے ہیں۔