دنیا بھر میں مشہور پاکستانی آموں کی پیدوار میں اس سال نمایاں کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو یقینا ایک تشویش ناک امر ہے۔زراعت اور اس سے وابستہ شعبے یقینا ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور جہاں اس شعبے کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ضروری ہے وہاں ہنگامی حالات کی صورت میں اس شعبے کو سہارا دینا بھی از حد ضروری ہے۔بد قسمتی سے زراعت کو ہر دور میں نظر اندازکیا گیا ہے اور جب بھی اس شعبے پر کوئی سخت وقت آیا تو اس کا سہارا دینے میں بھی دلچسپی نہیں دکھائی گئی۔اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے زراعت کے شعبے کو وہ آموں کی پیدوار میں نمایاں کمی ہے۔ اس حوالے سے ایک بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں برس جو آم کے ساتھ ہوا، ایسا بحران کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ سخت موسم، وائرس(کالا تیلو) اور پانی کی شدید کمی اس بحران میں مزید اضافے کی وجہ بنے، جس سے رواں برس اس فصل کی پیداوار تقریبا 50 فیصد تک کم ہو کر رہ گئی ہے۔
سندھ میں جو پاکستان میں آموں کی پیدوار کے حوالے سے قابل ذکر ہے وہاں کاشتکار اس بحران میں آم کو چھوڑ کر کسی اور فصل میں اپنی قسمت آزمائی کا سوچ رہے ہیں مگر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان جو پھلوں کے بادشاہ آم کی پیداوار کیلئے دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اسے اس بحران کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے اورایسے میں حکومت کو اب پیداوار کو بڑھانے کیلئے کون سے ایسے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے نہ صرف اس صنعت سے جڑے لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ خاندان غربت سے بچ سکیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی اس صورتحال سے دھچکا نہ لگے۔ ماہرین کے مطابق آم کی تو ابتداء ہی اس خطے سے ہوئی، جسے آج دنیا پاکستان اور انڈیا کے نام سے جانتی ہے۔ اس وقت پاکستانی آم 40 سے زائد ممالک کو برآمد ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے بعد قرنطینہ کے اصول سخت ہونے کے باوجود بھی امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا میں بھی آم اب بھی جا رہا ہے۔ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق پاکستان دنیا میں آم پیدا کرنے والا چھٹا بڑ ملک ہے اور عالمی سطح پر اس کی برآمدات کا حصہ تقریبا 3.5 فیصد بنتا ہے۔ سرکاری حکام نے بھی آم کی فصل میں نمایاں کمی کی توقع کی تصدیق کی ہے۔اس صنعت سے جڑے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس کے سیزن جو ہوا، ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ان کے مطابق اگر گزشتہ برس سو ایکڑ سے تقریبا 100 اور 130 گاڑیاں آموں کی ہو جاتی تھیں تو رواں برس صرف 30، 40 یا 50 گاڑیاں ہی مل پائیں۔
واضح رہے کہ یہ پاکستان کی 100 ارب روپے کا شعبہ ہے جس سے چار سے ساڑھے چار لاکھ خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس پاکستان نے 149 ملین کلو گرام آم برآمد کیے تھے، جس کی پاکستانی روپے میں قیمت ساڑھے 22 ارب بنتی ہے جبکہ رواں برس آم کی پیداوار میں 50 فیصد کمی متوقع ہے۔ان حکام کے مطابق کم پیداوار کے تناظر میں اس برس برآمدات کا ہدف بھی کم کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کیمطابق گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کا آم کی فصل پر بڑا اثر مرتب ہواہے۔ پاکستان میں آم کی فصل 18 لاکھ ٹن ہے، جس میں سندھ کا حصہ 29 فیصد، ایک فیصد خیبر پختونخوا جبکہ 70 فیصد پنجاب کا ہے۔ پہلے سیزن سندھ سے شروع ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ پنجاب کا رخ کرتا ہے۔
ماہرین زراعت کے مطابق اس سال موسم بہار کا دورانیہ بے حد مختصر رہا جس سے فلاورنگ نہیں ہو سکی جبکہ فصل کوپانی بھی وقت پر نہیں مل سکا جس سے پیداوار مزید متاثر ہوئی جبکہ دیگر عوامل میں ڈیزل کی قلت اور لوڈشیڈنگ بھی شامل ہیں۔2013 سے گلوبل وارمنگ کے اثرات پاکستان پر بڑھتے نظر آر ہے ہیں اورماہرین زراعت کے مطابق صرف آم ہی نہیں بلکہ دیگر فصلوں پر بھی اس کے اثرات پڑے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے فصلوں پرریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی کمی ہے۔ اچھے بیج نہیں اور کاشتکار پیدوار بڑھانے کے جدید طریقوں سے بھی واقف نہیں ہیں۔
دوسری طرف اس وقت پاکستان میں پیداور کی قیمت بہت زیادہ ہے جبکہ جہاں پاکستانی کاشتکار فی ایکڑ میں دو سے ڈھائی سو درخت آم کے اُگاتا ہے وہیں دنیا میں ایک ایکڑ میں اس سے کئی گنا زیادہ درخت اُ گائے جاتے ہیں۔چونکہ18ویں ترمیم کے بعد یہ سب اب صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زراعت کو آگے بڑھائیں، فوڈ سکیورٹی سے نمٹیں اور کاشتکاروں کو آگاہی دیں تاکہ وہ جدید تکنیک سے استفادہ کر سکیں۔دوسری طرف کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اب آم کے کاشتکار کیلئے نقصان برداشت کرنا ممکن نہیں اور ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکس کم کرے، پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور وائرس سے نمٹنے کیلئے کاشتکاروں کو موثر دوائیاں دے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے۔ کاشتکار تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت بروقت اقدامات اٹھائے کیونکہ اس وقت بہت بحرانی کیفیت ہے۔
ان کے مطابق اگر نقصان کم نہ ہوا تو پھر کسی اور کاروبار کی طرف چلے جائیں گے۔کاشتکاروں نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس بار بہار آنے سے پہلے ہی گرمیاں شروع ہو گئیں جس سے آموں کی پولی نیشن نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی تاہم ان کے مطابق اس بار جہاں پیداوار کم ہوئی اس سے آم کا سائز بڑھا ہے جو حوصلہ افزا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صحیح وقت پر آم کو سپرے کیا جائے اور زراعت کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جائے تو آم کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ان کے مطابق پیداوار بہتر کرنے کیلئے ڈرپ اریگیشن کا طریقہ بھی اچھا ہے جس کے ذریعے آم کو جتنا پانی چاہئے ہوگا اتنا ہی اسے مل سکے گا۔