افغانستان میں زلزلے سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ طالبان نے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔ تباہ کن زلزلے سے 1000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور بہت سے اب بھی ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔افغانستان پہلے ہی سے شدید انسانی اور اقتصادی بحران کا شکار رہا ہے اور گزشتہ روز کے تباہ کن زلزلے سے حالات مزید بد تر ہو گئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں تاہم نا کافی وسائل کے سبب یہ کام بہت مشکل ہو گیا ہے اور بہت سے علاقوں تک ابھی رسائی نہیں ہو پائی ہے۔حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں میں موسلا دھار بارشوں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔اس نا گفتہ بہ صورت حال کو بیان کرتے ہوئے طالبان کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ حکومت مالی طور پر لوگوں کی اس حد تک مدد کرنے سے قاصر ہے جتنی مقدار میں اس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس مشکل وقت میں بین الاقوامی برادری سے امداد کرنے کی اپیل کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امدادی ایجنسیاں، پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتیں اس وقت مدد بھی کر رہی ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ اس امداد کو بہت زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک تباہ کن زلزلہ ہے جس کا تجربہ ملک نے گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں کیا تھا‘ اقوام متحدہ کے حکام نے بتایا ہے کہ صحت سے متعلق ٹیمیں، طبی ساز و سامان، خوراک، اور ہنگامی طور پر رہائش کا انتظام کرنے کے لیے دیگر سامان زلزلہ زدہ علاقے کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔بدھ 22 جون کے روز افغانستان میں چھ اعشاریہ ایک شدت کے تباہ کن زلزلے نے زبردست تباہی مچا دی۔ اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ کم سے کم 1500 افراد زخمی ہوئے ہیں۔زلزلے کی وجہ سے مٹی سے بنے بہت سے مکانات تباہ ہو گئے جس کے ملبے کے نیچے ابھی تک نامعلوم تعداد میں افراد دبے ہوئے ہیں۔ جنوبی مشرقی صوبہ پکتیکا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں اقوام متحدہ کا ادارہ رہائش کے لیے فوری طور پر خیموں اور خوراک جیسی امداد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔زلزلے کے مرکز کے آس پاس والے علاقوں میں مکمل طور پر تباہ ہونے والے بہت سے دیہات، تباہ شدہ سڑکوں اور موبائل فون ٹاورز کو دیکھا جا سکتا ہے، جہاں لوگوں کو خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔گزشتہ دو دہائیوں کے بعد ملک میں آنے والا یہ مہلک ترین زلزلہ ہے جو طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ زلزلے کا مرکز خوست شہر سے تقریبا 44 کلومیٹر تھا، تاہم اس کے جھٹکے پاکستان اور بھارت میں بھی کئی علاقوں تک محسوس کیے گئے۔اطلاعات کے مطابق اب تک سب سے زیادہ ہلاکتیں پکتیکا کے گیان اور برمل اضلاع میں ہوئی ہیں، جہاں گیان کا ایک پورا گاں ہی تباہ ہو گیا ہے۔ زلزلے کے بعد موبائل فون کے ٹاورز کو شدید طور پر نقصان پہنچنے کی وجہ سے مواصلات میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔افغانستان اس خطے میں واقع ہے جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران ملک میں زلزلوں سے 7000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زلزلے سے سالانہ اوسطا 560 اموات ہوتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں، جنوری میں بھی ملک کے مغرب میں یکے بعد دیگرے آنے والے زلزلوں میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں مکانات تباہ ہو گئے تھے۔