گزشتہ دنوں وفاقی حکومتی اداروں کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار کی تفصیل سامنے آئی جس مطابق صرف وفاقی اداروں میں اس وقت ملازمین کی تعداد565,082 ہے جس میں 17 سے 22 گریڈ تک کے افسران کی تعداد 26481 ہے‘ ان اعداد و شمار کے مطابق تمام ملازمین کے تناسب سے افسران کی شرح4.7 فیصد بنتی ہے اگر سویلین فورسز جو ان اعداد و شمارمیں شامل ہیں ان کو ہٹا کر دیکھا جائے تو وفاقی ملازمین کی کل تعداد344782 ہے جن میں 24502 گریڈ17 سے22 تک کے افسران ہیں اور اس تناسب سے ان کی شرح7.1 فیصد بنتی ہے‘ سی ایس ایس یا کمیشن کے ذریعے بھرتی ہونے والے افسرن کی ان ملازمین میں تعداد6146 اورشرح کل ملازمین کا1.1 فیصد بنتی ہے‘ وفاقی سیکرٹریٹ کے ملازمین کی تعداد کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کی کل تعداد13222 بنتی ہے جن میں 17.9 فیصد یا2372 گریڈ17 سے اوپر کے افسران ہیں سیکرٹریٹ میں ایک افسر کے سٹاف میں اوسطاً5.57 ملازمین ہیں جو صرف اس افسر کے کام اور دفتر کی دیکھ بھال اور معاونت کرتے ہیں‘ کئی ایسے وفاقی ادارے صوبائی دفاتر بھی ہیں جہاں افسر کے دفتری عملے اور گھر کی ملازمین کی تعداد درجن بھر سے زیادہ ہے جن میں ریڈر‘ پی ایس او‘ ٹی اے‘ پی اے آپریٹر‘ اردلی وغیرہ شامل ہیں۔
مالی گن مین ویٹر کک وغیرہ شامل کیا جائے تو بعض افسران کے پاس تو لا تعداد سرکاری ملازمین دفتر اور گھر میں کام کرتے ہیں جن کی تنخواہیں سرکار ادا کرتی ہے ان کے پاس بے شمار گاڑیاں ہوتی ہیں سالانہ اربوں روپے نئی لگژری گاڑیوں کی خریداری اور ان کے پٹرول اور مرمت پر خرچ کئے جاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ وزراء‘ مشیروں‘ سرکاری افسران کو عملے گاڑیوں پٹرول اور دیگر مراعات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بہترانداز میں اپنے فرائض سر انجام دے سکیں البتہ ہمارے ہاں سالہا سال سے حاصل سرکاری مراعات کے پیمانے پر نظر ثانی ضرور کی جاسکتی ہے۔کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تو امور مملکت چلانے کیلئے ملازمین ہوتے ہیں تاہم ان کو حاصل مراعات شاید ہمارے مقابلے میں کم ہیں۔حکومت جس طرح کفایت شعاری کے ذریعے خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
عملے اور گاڑیوں کے علاوہ پٹرول اور فنڈز پر جو بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے‘ اگر ان اخراجات کو صرف اس حد تک محدود کیا جائے کہ افسران کے دفاتر اور گھروں میں صرف وہ ملازمین رکھے جائیں جو ان کو سرکاری طور پر منظور ہو چکے ہیں ان کی گاڑیوں کی خریداری پر مزید چند سال کوئی خرچہ نہ کیا جائے بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں کی بجائے ان کو گریڈ کے حساب سے 1500‘1000 سی سی گاڑیاں دی جائیں ان کے پٹرول کے اخراجات دفتر کے اخراجات کم کئے جائیں تو خزانے کو سالانہ اربوں کی بچت ہو سکتی ہے جو عوامی مفاد کے منصوبوں پر خرچ کئے جا سکتے ہیں ایسا نہیں کہ سرکاری افسران اور ملازمین کو مراعات حاصل نہیں لیکن جو سہولت اور آرام ان کی4/5 کروڑ کی لینڈ کروز میں حاصل ہے وہی ان کو 40 لاکھ کی 1500 سی سی گاڑی میں بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور فرائض بھی سرکار کو بھی ان دونوں میں توازن برقرار رکھنا ہے افسران‘ وزراء مشیران اور ملازمین کی حوصلہ افزائی اور ان کو مراعات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان سے کام لینا اور سرکاری خزانے پر بوجھ کم کرنا دونوں ضروری ہیں۔ یعنی حکومتی مشینری کو چلانے کے لئے جو اخراجات ضروری ہے وہ تو بہرحال جاری رہے تاکہ حالات کو دیکھتے ہوئے اور معاشی مشکلات کے مدنظر اخراجات میں کمی کے لئے جو ممکنہ ذرائع ہیں ان کو استعمال میں لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل حالات میں ہر کسی کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ اوریہ معاملہ صرف سرکاری ملازمین تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کا ہر فرد اگر کفایت شعاری اور میانہ روی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری معاشی مشکلات میں کمی نہ آئے۔