33سال قبل اکتوبر1989ء کے آخری ہفتے میں آدھی رات کے بعد شدید فائرنگ پشاور کے ایک پرامن نواحی گاؤں کے لوگوں کو جگاتی ہے جوان اسلحہ لیکر گھروں کی چھت پر چڑھتے ہیں محلے کے تقریباً تمام گھر ایک ہی خاندان کے تھے اسلئے ہر ایک کو دوسرے کی فکر تھی39 سالہ عبدالعزیز بھی اسی غرض سے کہ خدانخواستہ کسی رشتہ دار کو کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے میں پستول لیکر چادر اوڑھ کر چھت پر جاتے ہیں ایک دوسرے کو آوازیں دینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ دار سب خیریت سے ہیں اور فائرنگ کی آوازیں لوکاٹ کے باغ میں گھر ے نئے آنے والے افغان کرایہ داروں کے گھر سے آرہی ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ گھر پر چوروں یا کسی حملہ آور نے دھاوا بول دیا ہے۔گاؤں کے تمام افراد کو اس مہمان خاندان کی فکر ہے اسلئے ان کے دفاع میں گاؤں والے بھی لوکاٹ کے باغ پر فائرنگ کر رہے ہیں جہاں سے شدید جوابی فائرنگ ہوتی ہے کچھ دیر یہ سلسلہ جاری رہا پھر باغ سے فائرنگ تھم گئی۔ایسا لگا کہ حملہ آور فرار ہوگئے ہیں گاؤں بھر کے لوگ اب گلی میں جمع ہو کر مہمان کرایہ دار کے گھر کی طرف جا رہے ہیں کہ معلوم کریں ان کے ہاں خیریت ہے یا کوئی نقصان ہوا ہے اس گھر سے اب بھی مدد کیلئے آوازیں آرہی ہیں۔درجنوں افراد جب اس گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو باغ سے ان پر اچانک خود کار ہتھیاروں اور گرینڈوں سے حملہ ہوتا ہے،گاؤں کے لوگ اس کیلئے بالکل تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال غلط ثابت ہواتھا کہ شاید حملہ کرنے والے جاچکے ہیں‘دھماکوں اور مسلسل فائرنگ سے بے شمار لوگ زخمی ہو کر گرپڑے‘ ایک افغان خاندان کی حفاظت کی خاطر نکلنے والے بہت سے لوگ موت و حیات کی کشمکش میں تھے سارے ہی تقریباً ایک خاندان اور محلے سے تعلق رکھتے تھے جنہیں جو بھی گاڑی ملی اس میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا صبح تک خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر جگہ پھیل چکی تھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کاایمرجنسی وارڈ لوگوں سے بھر چکا تھا سینکڑوں لوگ وارڈ کے باہر جمع تھے کیونکہ یہ پشاور کے نواحی علاقوں میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ ایک انجان پردیسی مہمان کی خاطر ایک ہی خاندان اور گاؤں کے درجن سے زائد افراد گولیاں کھا چکے تھے بہادر اور دوسروں کا خیال رکھنے والے عبدالعزیز سب سے زیادہ زخمی اس لئے تھے کہ ان کو مہمان خاندان کی سب سے زیادہ فکر تھی اور وہ سب سے آگے چلتے ہوئے ان کی خیریت معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ گولیوں کا نشانہ بن گئے‘ ان کا جسم چھلنی تھا مگر ہسپتال میں بھی ان کو اپنے آپ سے زیادہ دوسرے زخمیوں اور اپنے چھوٹے بچوں اور اہلیہ کی تھی۔ دوپہر تک انکی حالت بگڑ گئی تھی ان کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا جہاں انہوں نے کئی گھنٹے زندگی کیلئے لڑنے کے بعد بالآخر شہادت کا جام نوش کرلیا ایک ان دیکھے غیر ملکی مہمان خاندان کی خاطر وہ زندگی کی سب سے بڑی قربانی دے گئے تھے۔ان کا چھوٹا بیٹا کاشف اس وقت محض چند ماہ کا تھا یہ صرف ایک محلہ اور خاندان کی کہانی ہے جس نے افغانستان سے آنے والے مہاجرین کے لئے قربانی دی پشاور پاکستان میں ایسے ہزاروں لاکھوں خاندان ہیں جنہوں نے جنگ سے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے گھروں‘ مساجد‘ حجروں‘ دکانوں‘ کاروبار‘ خاندان حتیٰ کہ دلوں میں جگہ دی ان کی ہر ممکن خدمت کی آج بھی لاکھوں افغان مہمان اپنے بچوں کے ہمراہ پشاور کا حصہ ہیں میزبان اور مہمان کو ایک دوسرے سے گلے بھی ملیں شکوے بھی ہیں مگر دوستی اور بھائی چارے کی ایسی مثالیں کسی اور جگہ نہیں ملیں گی اس قسم کے لوگوں کو نہ صرف دوسروں کے حقوق اور عزت کا خیال ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کو امن سب سے زیادہ عزیز ہے یہی وجہ ہے کہ شہید عبدالعزیز کا گھر آج بھی ”دہ امن کور“ یا امن کا گھر کے نام سے منسوب ہے۔