پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر گوہر امین کے ہمراہ گزشتہ دنوں بچوں کے امراض کے سینئر ڈاکٹر پروفیسر عبدالحمید سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خیبرپختونخوا کے بچوں کیلئے پشاور میں ایک بین الاقوامی معیار کے ہسپتال کی اشد ضرورت ہے جس کا احساس نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو کرنا چاہئے کیونکہ بچے ہی اس قوم کا مستقبل ہیں اور ان کی صحت ہمارے لئے سب سے زیادہ اہم ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام درد دل رکھنے والے افراد کو مل کر خیبرپختونخوا انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کو فوری اور مکمل فعال بنانے کیلئے اپنی توانائیاں استعمال کرنی چاہئیں اس ہسپتال پر کام تقریباً 2دہائیاں قبل اس وقت شروع کیا گیا جب ایک تقریب میں پاکستان پیڈیا ٹرک ایسوسی ایشن نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکرم درانی کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ صوبے میں بچوں کیلئے ایک ایسے ہسپتال کی اشد ضرورت ہے جس میں عام علاج کے ساتھ ساتھ ہر بیماری کیلئے علیحدہ خصوصی شعبے ہوں جن میں ماہر ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف کے علاوہ ہر قسم کی جدید لیبارٹری اور علاج کی سہولیات دستیاب ہوں اور جو بچوں کے امراض کے ڈاکٹروں کے علاوہ نرسز اور میڈیکل ٹیکنیشن کو باقاعدہ ٹریننگ فراہم کرے جہاں جدید اور بین الاقوامی معیار کی تحقیق ہو اور جس کو صوبہ بھر کے تمام اضلاع کے ہسپتالوں کے ساتھ لنک کیا جا سکے پروفیسر عبدالحمید کے مطابق انہوں نے یہ بات وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات میں تقریباً2003ء میں اٹھائی دو سال بعد انہیں وزیر اعلیٰ ہاؤس بلایا گیا اور اکرم خان درانی نے خود پورے شہر کا ان کے ہمراہ دورہ کرکے حیات آباد میں ہسپتال کیلئے موجودہ پلاٹ کا انتخاب کیا محکمہ صحت کی جانب سے ادائیگی کرکے ایک اور ادارے سے 20کنال خالی پلاٹ خریدا گیا جبکہ16کنال کی ایک اور اراضی بھی اس منصوبے کیلئے حاصل کی گئی عمارت اور قیمتی آلات کی خریداری کا مرحلہ آیا تو سینئر ڈاکٹروں اور حکومت کی جانب سے ایک ترقیافتہ ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے مختلف مراحل کے بعد2 کروڑ ڈالر امداد کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرادی البتہ فنڈز کی ادائیگی سے قبل ان کے افسران کا بذات خود موقع کا معائنہ لازمی تھا ان وامان کی صورتحال اس وقت تک کافی خراب ہو چکی تھی جس کی وجہ سے غیر ملک اہلکاروں کی پشاور آمد میں کئی رکاوٹیں تھیں۔ڈاکٹر حمید بتاتے ہیں کہ اس دوران کافی وقت گزارا تو نجانے کس نے اور کس طرح غیر ملکی امداد کیلئے دی گئی درخواست بھی واپس لے لی یوں 2کروڑ ڈالر ہاتھ سے چلے گئے‘ بعد میں سینئر ڈاکٹروں نے اپنی طرف سے دوسرے ممالک سے بھی رابطہ کیا یو ایس ایڈ کی طرف سے انسٹی ٹیوٹ کیلئے آلات‘ فرنیچر اور بہت سی دوسری مشینری فراہم کی گئی البتہ 20کنال پر ابھی عمارت نہیں بن سکی تھی حکومت کا اپنے وسائل سے اس کی تعمیر مشکل لگ رہی تھی غیر ملکی اداروں سے بات چل رہی تھی مگر معلوم ہوا کہ پلاٹ حکومتی اہلکار کسی اور کو الاٹ کرنے جارہے ہیں اس دوران حکومت بھی بدل چکی تھی بچوں کے امراض کے سینئر ڈاکٹروں نے اپنی بھرپور مزاحمت کی اور بالآخر پلاٹ اسی انسٹی ٹیوٹ کو دیا گیا البتہ اب کی بار بیرونی امداد کا حصول مشکل لگ رہا تھا دوبار اس کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا دوبار پی سی ون بنا مگر ڈالر کی قدر میں اضافے اور مہنگائی کی وجہ سے اس کی لاگت میں اب کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا سب ایسے مایوس ہوئے کہ منصوبہ سردخانے میں چلا گیا کبھی کبھی کوئی چنگاری اٹھتی مگر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی گزشتہ سال بھی حکومت نے اس کی تعمیر کیلئے وفاقی حکومت سے امداد طلب کی تاکہ بچوں کیلئے اس انتہائی اہم نوعیت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے2003-4 میں ہسپتال کیلئے پہلا پی سی ون بنا تو منصوبے کی لاگت کا تخمینہ12ارب 29کروڑ روپے لگایا گیا کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے منصوبہ مسلسل نظر انداز ہوتا گیا تو گزشتہ سال لاگت کا تخمینہ 7 ارب95 کروڑ تک جا پہنچا ملک اور دنیا میں مہنگائی کی شرح اور ڈالر کی قدر میں اضافے کو دیکھا جائے تو آج یہ لاگت اس سے بھی کہیں زیادہ ہوگی البتہ آج اس ہسپتال کی ضرورت پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد آج بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں سے رابطے میں ہیں تاکہ اس منصوبے کو مزید کسی تاخیر کے جلد سے جلد مکمل کیا جا سکے ڈاکٹر گوہر امین کے مطابق ڈاکٹر عبدالحمید اور انکے دیگر بے شمار ساتھیوں نے جو پودا لگایا تھا پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن اور اسکے ممبران آج بھی ہر وہ دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے تیار ہیں جہاں سے اس منصوبے کے بلاتاخیر مکمل ہونے کی امید ہو اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کمیٹیاں بھی بنائی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں صوبے کے 18سال سے کم49فیصد آبادی کے مستقبل اور انکی صحت کی خاطر اس فوری اور اہم نوعیت کے منصوبے پر بلاتاخیر کام شروع کرنے کیلئے اقدامات کریں اور اس منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کرکے صوبے میں ایک بین الاقوامی معیار کے بچوں کے ہسپتال کا خواب پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔