انڈیا کی سب سے امیر ریاست مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اودھو ٹھاکرے نے کئی دن سے جاری سیاسی غیریقینی کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیالگتا ہے انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اگلے روز سپریم کورٹ انہیں صوبائی ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دے گی اور وہ شاید اپنی وزارتِ اعلیٰ نہ بچا سکیں‘اپنی ہی جماعت کے متعدد ارکانِ اسمبلی کے باغی ہو جانے کے بعد ٹھاکرے کے پاس کوئی دوسرا راستہ بچا بھی نہیں تھا یہ ارکان واضح طور پر بتا چکے تھے کہ انہیں نہ تو اودھو ٹھاکرے پر اعتماد رہا ہے اور نہ ہی اس مخلوط حکومت پر جس میں نیشنل کانگریس پارٹی جیسی معتدل جماعت اور کانگریس پارٹی شامل ہیں‘ان باغی ارکان کا کہنا تھا کہ اودھو ٹھاکرے اور ان کی جماعت شیوسینا نے دوسری جماعتوں سے اتحاد کی خاطر شیوسینا کی ہندو قوم پرستی کے نظریہ کو نظر انداز کر دیا تھا‘یہ ارکان کئی دن تک اپنی آبائی ریاست سے ہزاروں کلومیٹر دور شمال مشرقی ریاست آسام کے ایک ہوٹل میں دبک کر بیٹھے رہے‘اب یہ باغی ارکان اپنے رہنما اور مہاراشٹر کے سینیئر وزیر اکناتھ شِندے کی قیادت میں واپس ممبئی پہنچ چکے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اب وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش کریں گے‘یہ بات حیران کن ہے کہ شیوسینا کے ارکان کی ایک بڑی تعداد ایک مرتبہ پھر بی جے پی سے ہاتھ ملانے جا رہی ہے‘ ان دونوں جماعتوں نے 30 برس سے زیادہ عرصے تک اتحادی رہنے کے بعد آخر کار 2019 ء میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار پر اتفاق نہ ہونے کے بعد راہیں جدا کر لی تھیں‘اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب شیوسینا ایک دوراہے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ بی جے پی اس سے پہلے ہی ناراض تھی کہ شیوسینا نے معتدل جماعتوں سے ہاتھ ملا لیا تھا‘ لیکن اب شیوسینا کے ہاتھ سے حکومت بھی چھن گئی ہے۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا کی اس سب سے بڑی علاقائی جماعت کا مستقبل کیا ہے؟ مبصرین کہتے ہیں کہ شیوسینا کو جو دھچکہ اِس مرتبہ پہنچا، اس سے امکان یہی ہے کہ جماعت کے حوصلے پست ہو جائیں گے‘ سیاسی تجزیہ کار، سوہاس کے بقول جماعت کے اندر بغاوت سے شیو سینا کا زوال شروع ہو چکا ہے‘شیوسینا کے سابق رکن اسمبلی بھارت کمار روت کی باتوں میں بھی ہمیں یہی بازگشت سنائی دیتی ہے‘وہ کہتے ہیں کہ آج سے پہلے جماعت کو کبھی اتنے بڑے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مرتبہ اودھو ٹھاکرے اور ان کی جماعت کے لئے آج نہیں تو کبھی نہیں والی صورتِحال پیدا ہو چکی ہے؛انڈیا میں شیوسینا جیسی علاقائی جماعتوں کا ہمیشہ نہ صرف اچھا خاصا سیاسی اثرو رسوخ رہا ہے بلکہ یہ جماعتیں ریاستی انتخابات میں قومی سطح کی بڑی بڑی جماعتوں کو شکست سے دوچار بھی کرتی رہی ہیں‘اگر آج اسکے 39 باغی ارکان بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست میں نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہی تو شاید شیوسینا کو کچھ وقت کیلئے سیاسی منظرنامہ سے غائب ہو جانا پڑے اور ایسے وقت میں اگر جماعت کے مقامی کارکن بھی باغیوں کی حمایت میں سامنے آ جاتے ہیں تو مسٹر ٹھاکرے کے مسائل میں اضافہ ہو جائیگا‘لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ باغی ارکان کے چلے جانے سے دیہات اور ضلعی سطح پر جماعت کے ڈھانچے کو کتنا نقصان پہنچا۔لیکن لگتا ہے کہ اب شیوسینا اور بی جے پی کا اتحاد واقعی ختم ہو چکاہے