بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر

تاریخی شہر الہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج رکھنے والی مودی سرکار اب حیدرآباد دکن کا نام بھی تبدیل کرنا چاہتی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق حکمران جماعت کی جانب سے ملک کے مسلم ناموں والے شہروں کے نام کو تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تقریر کے دوران حیدرآباد کو بھاگیہ نگر قرار دیدیا۔بی جے پی کے رہنما روی شنکر پرساد نے اپنے وزیراعظم کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد بھاگیہ نگر ہے جو ہم سب کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی 2020 میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے دوران ووٹروں سے پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی تاکہ حیدرآباد کو بھاگیہ نگر میں تبدیل کیا جا سکے۔اس سے قبل انتہا پسند ہندو جماعت آر ایس ایس اور حکمراں جماعت بی جے پی کے مقامی قائدین بھی حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر رکھنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔اسی طرح مرکزی وزیر پیوش گوئل نے بھی کہا تھا کہ جب ریاست میں بی جے پی اقتدار میں آئے گی تو چیف منسٹر کابینہ کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حیدر آباد کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔خیال رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی جماعت کے ایک اہم اجلاس کے لیے پہلی بار نئی دہلی کے بجائے حیدرآباد میں کر رہی ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ حکمراں جماعت حیدرآباد سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ا سکے ساتھ ساتھ ایک اور مسلم دشمن اقدام کے طور پر بھارتی ریاست ہریانہ کے علاقے مانیسر میں ایک پنچایت نے مسلمان تاجروں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس سلسلے میں باقاعدہ کمیٹیاں بنانے کی ہدایت کردی۔ہندو سماج کی نمائندگی کے نام پرہونے والی پنچایت میں انتہا پسند ہندو تنظیموں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں سمیت 200 سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر پنچایت نے مقامی انتظامیہ کو الٹی میٹم دیتے ہوئے ہندوں کو علاقائی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر مسلمان دکان داروں اور تاجروں کا معاشی بائیکاٹ کرنے پر اُکسایا گیا ہے۔پنچایت میں مانیسر کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی ہندوؤں نے شرکت کی،دوسری جانب ریاست گجرات کے ضلع بناس کانٹا کے ایک گاؤں میں پنچایت کی جانب سے جاری کیا گیا ایک خط وائرل ہو رہا ہے، جس میں مسلمانوں سے سامان نہ خریدنے کی اپیل کی گئی ہے۔ خط کے مطابق اگر کسی شخص نے مسلمانوں سے سامان خریدا تو اسے 5100 روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔خط پر سرپنچ کے دستخط اور مہر بھی لگی ہوئی ہے۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت بھار ت میں مسلم دشمنی عروج پر ہے اور مودی سرکار آر ایس ایس ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے میں تیزی دکھا رہی ہے۔ اس سے قبل نئی دہلی میں روہنگیا اور بنگلادیشی تارکین وطن مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو مسمار کرنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے دارالحکومت کے 40 گاؤں کے مسلم نام تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر رکھی، گجرات میں مسلم کش فسادات اور بابری مسجد مسمار کی ذمہ دار بھی یہی جماعت ہے۔ تاہم بد قسمتی سے عالمی ادارے اس حوالے سے خاموش ہیں اور بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے حوالے سے وہ بھارتی حکومت کے منصوبوں میں رکاوٹ ثابت نہیں ہو رہے۔ حالانکہ یہ ادارے دیگر ممالک میں چھوٹے مسئلے کو اچھال کر واویلا مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کی بڑی منڈی کی بجائے اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر نظر رکھی جائے۔