ٹڈی دل کا منڈلاتا خطرہ

صحرائی ٹڈی دل کی پاکستان ممکنہ آمد کی خبر کے بعد پاکستان کے کاشتکاروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ دو برس قبل فروری 2020 کی بات ہے جب صحرائی ٹڈی دل نے پاکستان پر حملہ کیا۔ سندھ میں تباہ کاری کے بعد پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں یہ حملہ آور ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹڈی دل کھڑی فصلیں چٹ کر گئے، سبزہ اجاڑ دیا، پھل دار درختوں کا صفایا کر ڈالا۔اس وقت عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ صحرائی ٹڈی دل کے حملے کی وجہ سے پاکستان کی فصلوں کو پہنچنے والا مجموعی نقصان ایک ہزار ارب روپے کے برابر ہو سکتا ہے۔ ڈی آئی خان میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ یہ مناظر کاشتکاروں کے لیے بہت خوف ناک تھے۔اگرچہ اس وقت پاکستان کو ٹڈی دل سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس وقت پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں ٹڈی دل کی کوئی سرگرمی نہیں ہے جبکہ ایران اور افغانستان میں بھی ٹڈی دل کی صورتحال بھی پرسکون ہے اور ان کی تعداد کم ہونے کے باعث ان سے خطرہ نہیں ہوگا۔ تاہم مون سون کی بارش کے دوران پاکستان کے صحرا چولستان اور تھرپارکر میں ٹڈی دل ظاہر ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت 1945 سے کام کررہا ہے اور تمام دلچسپی رکھنے والے ممالک کو ٹڈی دل کی عمومی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔وہ ممالک جہاں ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ہے، وہاں بروقت معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔لوکسٹ ایمرجنسی اینڈ فوڈ سیکیورٹی (LEAFS)پروجیکٹ ورلڈ بینک کی جانب سے تیار اور منظور کردہ پروگرام ہے جس کی مالیت تقریبا 96 ملین ڈالر ہے۔ اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے تمام صوبوں میں ٹڈی دل کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مستقل اور پائیدار بنیادوں پر قومی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔اس پراجیکٹ کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کیلئے ایف اے او تیکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔صحرائی ٹڈی دل موسم گرما اور موسم بہار میں انڈے دیتے ہیں۔ ایک مادہ ایک دن میں اپنی دم ریت میں گاڑ کر 10سے 15 سینٹی میٹر لمبی ایک مخصوص تھیلی میں 95 سے 158 انڈے دیتی ہے۔ 
ایک مربع میٹر میں تقریبا ایک ہزار انڈوں والی تھیلیاں موجود ہوتی ہیں جن سے دو سے تین ہفتوں کے بعد بچے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تو اس بڑے پیمانے پر افزائش کی وجہ سے اس کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ صرف ٹڈی دل کی موجودگی سے خطرہ نہیں ہوتا لیکن ان کی سرگرمی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ خوراک بھی زیادہ لیتے ہیں اور ان کی پرواز بھی بڑھ جاتی ہے۔صحرائی ٹڈی دل پاکستان میں مشرق اور مغرب کی جانب سے اور بعض اوقات یہ جنوب مغرب یعنی سعودی عرب اور یمن وغیرہ سے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ایران کی سرحد کے ساتھ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ٹڈی دل کی بہار کے موسم میں بریڈنگ ہوتی ہے۔ اس موسم میں سروے بھی کیے جاتے ہیں۔ جون میں وہاں ٹڈی دل کی سرگرمی ختم ہو جاتی ہے۔ انڈیا کے ساتھ سرحد پر چولستان اور تھرپارکر کے علاقے میں اور انڈیا کی گجرات اور راجستان کی بیلٹ پر جون سے دسمبر تک ٹڈی دل کی موجودگی کی توقع ہوتی ہے۔ ٹڈی دل کئی بار بریڈنگ کریں تو اس صورت میں زیادہ تعداد کی وجہ سے وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ان کی نئی نسل کی پیدائش میں بھی کم از کم 2 ماہ لگ جاتے ہیں۔اگر ابھی پہلی نسل جون میں شروع ہو گی اور ستمبر میں دوسری نسل پیدا ہو گی، تو دو نسلوں میں یہ اس قابل نہیں ہونگے کہ اکتوبر میں یہ فصلوں کیلئے خطرناک ثابت ہوں۔