انقلابی ترقی

لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عید قر باں خیر خوبی سے گزر گئی۔ایک وقت تھا کہ جب ہمارے گاؤں میں صرف ایک شخص کے ہاں قربانی ہوا کرتی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ بچے عید کا گوشت لینے اُن کے ہاں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اوربچے خوشی خوشی یہ گوشت لے کر گھروں کو لوٹ جایا کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہہمارے گاؤں کی حالت بدلنے لگی اور گاؤں کے سارے گھروں سے کم از کم ایک شخص آرڈینس ڈپو اور آرڈیننس فیکٹری میں نوکر ہو گیا اور پھر گاؤں کے تقریباً ہر گھر میں ہی قربانی ہونے لگی۔ کچھ لوگ اکیلے میں بکرے کی قربانی کرتے ہیں اوربہت سے لوگ بڑے جانور میں سات سا ت حصہ دار بنتے ہیں اور یوں ہر گھر میں اپنا قربانی کا گوشت آنے لگا ہے اور ہر گھر سے ایک حصہ غرباء میں تقسیم ہونے لگابلکہ قربانی کرنے والے خود غریبوں کے گھروں میں جا کر گوشت دینے لگے۔ یعنی جس طرح کسی وقت گوشت کو غریبوں میں تقسیم کیا جاتا تھا وہ بات ختم ہو گئی اور قربانی کا گوشت اُس طرح تقسیم کرنے کا رواج ختم ہو گیا۔ اس لئے کہ تقریباً ہر گھر میں ہی اپنی قربانی ہونے لگی اس لئے غرباء کا حصہ بھی گھر گھر جا کر دینے کا رواج ہو گیا۔ اور یہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کہ گاؤں سے غربت تقریباً ختم ہی ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گاؤں کے ہر گھر کے ایک دو یا تین تین لوگ سرکاری نوکر ہونے لگے جبکہ پہلے بے روزگاری بہت زیادہ تھی۔ یہ اس علاقے کی خوقسمتی تھی ہمارے ہاں دو بڑے ادارے قائم ہوئے ایک آرڈننس ڈپو اور ایک آرڈننس فیکٹری جس میں ہر گھر کے ایک یا دو آدمی نوکر ہو گئے اس لئے وہ غربت جو کبھی ان گاؤں میں پر پھیلائے بیٹھی تھی وہ کہیں اُڑ گئی اور گھر گھر خوشحالی آ گئی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کسی بھی علاقے میں ترقیاتی منصوبوں سے وہاں کی حالت بد ل جاتی ہے اور جو علاقے غربت کا شکار ہوتے ہیں وہاں پر خوشحالی آجاتی ہے۔پہلے یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا انحصار زمیندار ی پر تھا، کھیتوں سے فصل حاصل کرتے اور بعد میں پیس کر آٹا بھی اپنا ہی استعمال کرتے۔ اب ہمارے گاؤں کے لوگ نوکری سے پیسہ حاصل کرتے ہیں اور شہر سے آٹا خرید لاتے ہیں۔ یعنی راہی باہی والا سلسلہ ختم ہو گیا اور تنخواہ سے گھر کی ساری ضروریا ت پوری ہونے لگیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگوں کا رحجان پڑھائی کی طرف ہوگیا  اس لئے کہ جو بچے زمیندار ی میں والدین کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے وہ سکولوں میں بیٹھ گئے اور ہمارے علاقے میں پڑھے لکھے لوگوں میں اضافہ ہونے لگا اور اب ہر گھر میں ایک دو بچے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ مل جائیں گے۔ اس لئے کہ اب بچوں کی ضرورت کھیتوں میں نہیں ہے اس لئے انہوں نے سکول اور کالج آباد کر لئے ہیں اور اب ہر گھر میں آپ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادمل جاتے ہیں اور یو ں گورنمنٹ اداروں میں بچوں کو جگہ ملنا شروع ہو گئی اور اب سارے گاؤں میں آپ کو سرکاری ملازمین ملیں گے اور یہ بھی کہ اب ہمارے علاقے میں تعلیم کی اوسط تقریباً سارے ضلع میں سب سے زیادہ ہے۔اور اسی طرح ہمارے ہاں گورنمنٹ سرونٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں زمینداری والا معاملہ ہی ختم ہو گیا ہے اور جن زمینوں پر فیکٹریا ں اور ڈپو قائم ہوئے ہیں ان کے مالکان کو ڈپووں اور فیکٹریوں میں نوکریاں مل گئی ہیں اور یوں زراعت کو ملازمتوں میں بدل دیا گیاہے۔ اور زمینوں سے حاصل کیا جانے والا غلہ اب شہر سے آٹے کی صورت میں مل جاتا ہے او ر جوسبزیاں اور دالیں وغیر ان زمینوں سے حاصل ہو ا کرتی تھیں وہ آسانی سے بازار سے مل جاتی ہیں اور ہینگ پھٹکڑی لگائے بغیر آپ کو زندگی کی ساری ضروریات بازار سے آسانی سے مل جاتی ہیں جب کہ ان کے حصول کیلئے رقم ان فیکٹریوں اور ڈپووں سے حاصل ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں کہ جہاں سے آپ کو ضروریات زندگی کی خریداری کیلئے رقم مل جاتی ہے۔ یہ ایک مثال ہے علاقے کی حالت بدلنے کی۔ اور یہ کہانی ہر گاؤں کی ہے۔ کسی وقت جہاں پر کچے مکانات تھے اور کچی گلیاں تھیں وہاں اب پکے کئی منزلہ عمارتیں ہیں اور پکی گلیاں ہیں۔ جس گاؤں میں سکول نہیں تھا اب وہاں کئی سکول ہیں اور قریبی فاصلے پر کالج بھی کھل گئے ہیں۔ ایک طرح سے ترقیاتی منصوبے کسی بھی گاؤں میں انقلابی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں اور ان کے اثرات نسل درنسل جاری رہتے ہیں۔