قومی معیشت کا استحکام

یہ امر قابل اطمینان ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے معاملات طے ہونے کے بعد جہاں روپیہ کی قدر مستحکم ہونے کے اشارے ملے ہیں وہاں سٹاک ایکسچینج پر بھی اس کے مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں تاہم ان سب کے باوجود یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ قرض کا معاہدہ وقتی آسانی تو ہوسکتی ہے، معاشی مسائل کا پائیدار حل نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ مسائل کے حل کی جانب ایک راستہ قرار دیا جاسکتا ہے مگر اسے منزل قرار دے کر ہم ویسی ہی غلطی کریں گے جو پچھلی نصف صدی کے دوران بار بار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان دسمبر 1968 میں آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ میں شامل ہواجب کہ پہلا قرض مارچ 1965 میں حاصل کیا۔ اس کے بعد کوئی دہائی ایسی نہیں جب عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع نہ کیا گیا ہو۔اس عالمی ادارے کے قرض مخصوص شرائط پر مبنی ہوتے ہیں اور بتدریج بڑھتی ہماری ضرور توں اور دولت پیدا کرنے کی محدود صلاحیت کے طفیل یہ شرائط بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

اس وقت ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی وصولی سے معیشت کے مسائل کے حل کی امید لگا لینا بڑی غفلت ہو گئی۔اصولی طور پر اس قرض کو یوں لینا چاہئے کہ اس سے معیشت کو درست خطوط پر استوار کرنے میں مدد مل سکے۔پیداواری سرگرمیاں اور برآمدات کسی معیشت کی جان ہوتی ہیں اور ہمارے ہاں یہ دونوں شعبے ہی ناتواں ہیں۔پیداوار کی کمی درآمدات سے پوری کی جاتی ہے، اور درآمدات میں توانائی کے وسائل، مشینری اور تکنیکی آلات کے بعد خوراک ایک بڑی مد ہے جس پر سالانہ تقریبا دس ارب ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔کم ہوتی پیداوار اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر گزشتہ مالی سال کے پہلے 9ماہ کے دوران خوراک کی برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ملکی سطح پر خوراک کی پیداوار کی جانب توجہ دے کر خوراک کی برآمدات پر اٹھنے والے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بچانے کیلئے سخت ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے ڈھیلی ڈھالی امپورٹ پالیسی کے بجائے سخت ترین اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی ضرورت ہے۔

اشیائے تعیش یا ایسی اشیاء جو ملک میں بنائی جا سکتی ہیں کی درآمد کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا ملک ایک صارف کی سطح سے کبھی بلند نہیں ہو سکے گااور قرض کے ڈالر اور پاکستانی کارکنوں کا محنت سے کمایا زرمبادلہ درآمدات کی نذر ہوتا رہے گا۔حکومت کو درآمدات کم کرنے اور ملکی ساختہ اشیا ء کے استعمال کا رجحان بڑھانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہونگے یہ سوچ ہمارے ملک میں چھوٹی، درمیانی اور بڑی صنعتوں کے فروغ کا سبب بنے گی۔ہمارے سامنے بہت سارے ممالک کی مثال ہے جنہوں نے ملکی صنعت کو فروغ دے کر نہ صرف بیرون ملک سے درآمدات میں خاطر خواہ کمی کی ہے بلکہ صنعتی ترقی کے باعث وہ دوسرے ممالک کو برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کما کر اپنی معیشت کو مستحکم کر چکے ہیں۔یہ جو ہمارے سامنے تائیوان اور جنوبی کوریا آج ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا پر راج کر کرنے والے ممالک میں شامل ہوگئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے پائیدار پالیسیاں بنائیں اور ترقی کے سفر میں تسلسل کو برقرار رکھا۔اس طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے ضروری ہے کہ ایسے فیصلے کیے جائیں جو قوم کے دیرپا اور حقیقی فائدے کے ہوں۔ملک کے لئے ایسے جامع فیصلے سیاسی ہم آہنگی اور استحکام کے بغیر ممکن نہیں‘اختلافات کا بڑھا مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا‘سیاسی قیادت کوشش کرے تو قومی مفاد میں سیاسی ہم آہنگی اور معاشی اصلاحات کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔