ہمارے لڑکپن اور نوجوانی میں ہمارے ضلع (جو اب تین چار ضلعوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔) میں ایک ہی ایسی سڑک تھی جو مانسہرہ کو ایبٹ آباد اور ایبٹ آباد کو راولپنڈی سے ملاتی تھی اور ایک حسن ابدال سے مڑ کر پشاور تک چلی جاتی تھی۔ سڑک اس طرح بنائی جاتی تھی کہ یہ درمیان سے اونچی او ر دونوں جانب گولائی میں کچی زمین تک پہنچتی تھی۔ چونکہ یہ درمیا ن سے ابھری ہوئی ہوتی تھی اس لئے اس کو گو لہ کہا جاتا تھا۔ درمیان کا ابھار ایسا ہوتا تھا کہ بارش کا پانی سڑک پرکسی طرح رک نہیں سکتا تھا اس سڑک کوہم گولہ کہاکرتے تھے۔ بارشوں کے موسم میں جونہی بارش ختم ہوتی تو گولے پرایک قطرہ پانی بھی نہیں ہوتا تھا اور سڑک بالکل خشک ہو جاتی تھی اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ بارش کا پانی سڑک کو خرا ب نہیں کرتا تھا بلکہ سڑک کا منہ دھلا دیتا تھا اور سڑک چم چم کرتی دکھائی دیتی تھی۔ ایسی سڑکوں کی عمر کافی ہوتی تھی۔بہت کم ایسا ہوتا کہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔پھر یوں ہوا کہ سڑکوں کے معیار پر توجہ کم ہوگئی ایک تو سڑکوں کا جال دور دیہاتوں تک پھیل گیا اور دوسرے ان میں ایسا مواد استعمال ہو نے لگا کہ یہ بہت جلد خرا ب ہونے لگیں۔
جہاں تک سڑکوں کی افادیت کا تعلق ہے تو یہ تومسلم ہے کہ سڑکیں لوگوں کے لئے ایک آسان ذریعہ ملاپ ہے۔ لوگ ایک گاؤں کایا شہر سے دوسرے گاؤں یا شہر تک آسانی سفر کر سکتے ہیں اور ٹریفک نے کہ سفر اور بھی آسان بنا دیا ہے اور میلوں کا فاصلہ جو انسان پیدل ایک پورا دن یا دو تین دن میں طے کیاکرتے تھے وہ ان سڑکوں اور ٹریفک کے ذریعے گھنٹوں میں طے ہونے لگا ہے اور ان کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ مال کا پہنچنا آسان ہو گیا ہے اور جو پیداوار ملک کا ایک حصہ حاصل کرتا ہے وہ آسانی ہے ساتھ اور بہت کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگا ہے۔ یوں جو اس سے قبل ملک کے بہت سے حصوں میں قحط کی صورت پیدا ہو جایا کرتی تھی وہ ختم ہو گئی اس لئے کہ اگر ایک ملک میں یا ملک کے کسی حصے میں پیداوارکم ہوئی ہے تو آسانی کے ساتھ دوسرے ملک یا ملک کے دوسرے حصے سے اُس جگہ منتقل کی جا سکتی ہے۔ یعنی جو صورت حال قحط کی ا سے چند سال پہلے ہو جایا کرتی تھی وہ اب نہیں ہے۔ اگر ایک ملک میں قحط کی صورت ہو تی ہے تو دوسرے ممالک سے یہ کمی دنوں میں پوری کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح اگر ایک جگہ کوئی بیماری پھوٹ پڑتی ہے تو اس کا قلع قمع بھی دوسری جگہ سے امداد حاصل کر کے جلد از جلد کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم کا حصول بھی ان کی وجہ سے آسان ہو گیا ہے اگر ایک گاؤں یا شہر میں تعلیم کے ذرائع کم ہیں تویہ دوسرے شہر سے آسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ویسے تو اب ملک کے تقریباًسارے ہی حصوں میں اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کر دیا گیاہے تاہم ا بھی بھی بہت سی جگہوں پر اعلیٰ تعلیم کا بندوست نہیں ہو پا رہا مگر دیکھا جائے تو اب ملک کے تقریباً سارے ہی حصوں میں اعلیٰ تعلیم قریبی شہروں سے حاصل کی جا سکتی ہے اور اس میں سڑکوں او رٹریفک کا بہت بڑا ہاتھ ہے یہ ٹریفک کا آسان انتظام ہی ہے کہ اب شہروں تک دیہاتوں کی رسائی ممکن ہو پا رہی ہے اور آسانی سے ہو پا رہی ہے۔ سڑکوں اور ٹریفک کی وجہ سے ا ب شہروں اور دیہاتوں کے فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں اور ا ب یہ خیال نہیں ہے کہ کیسے کوئی طالب علم کسی ہائی سکول تک یا ہائر سکینڈری سکول تک یا کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ پائے گا ا ان سڑکوں او رٹریفک کے ذریعے کسی بھی جگہ سے ملک کے دوسرے حصے میں آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔ ان سڑکوں اور ٹریفک نے فاصلوں کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے۔ آج آپ ایبٹ آباد سے پشاور اپنا سارا کام کر کے دن کے دن واپس اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں اس لئے کہ یہ فاصلہ تیز ٹریفک اور کھلی سڑکوں کے سبب سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح آپ ملک کے کسی بھی حصے میں آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور اگر واپسی کا ارادہ ہو تو آسانی سے واپس بھی آ سکتے ہیں اس لئے کہ اب سڑکیں اتنی کھلی ہیں اور ٹریفک اتنی تیز ہے کہ آپ دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہے ہیں۔