اس وقت ملک میں سیاسی ہلچل عروج پر ہے جب کہ اصولی طور پر سیاسی مخالفت کی بجائے قومی معیشت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، معیشت کی حالت روز بروز خراب تر ہوتی جا رہی ہے، کوئی دن نہیں جاتا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ نہ ہو، اوپن مارکیٹ کے حالات زیادہ خراب ہیں، معاشی بحران کے لئے اسباب دنیا کے طلب و رسد کے مسائل یا عالمی منڈیوں کے محرکات ہوں گے، لیکن ہمارے ملک میں اس کے بنیادی اسباب سیاست سے جڑے ہیں۔ پچھلے تین چار ماہ کے حالات کا سرسری جائزہ بھی یہ ثابت کر دیتا ہے کہ جوں جوں سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، معیشت دگرگوں ہوتی چلی گئی، 26 اپریل کو ملک میں ڈالر کی قیمت 187 روپے تھی، 25جولائی کو سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے ریٹ کے مطابق ڈالر 230 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ معیشت کی ساکھ ہی اس کی اصل طاقت ہوتی ہے، مگر سیاست کا طوفان بلاخیز جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا،حالیہ دو ماہ میں عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے مسلسل دوسری بار پاکستان کی ریٹنگ میں کمی کی ہے اور منفی ریٹنگ کا نقصان یہ ہوا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر سالانہ 17 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے اگر کفایت شعاری کی پالیسی پر بحیثیت قوم ہم میں سے ہر فرد عمل پیرا ہو تو ہمارا امپورٹ بل کافی حد تک کم ہوسکتا ہے، اگر چہ حکومت نے غیر ضروری درآمدات پر پابندی عائد کی تھی تاہم ان میں سے کچھ آئٹم پر پابندی پھر ختم کی جار ہی ہے، بیرون ممالک سے موبائل فونز امپورٹ کرنا بھی پاکستان کی معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ ملک میں گزشتہ سال تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کے موبائل فونز درامد کئے گئے۔عوام مہنگے فونز کی خریداری کا سلسلہ کچھ عرصہ کیلئے روک کر پاکستان کو بھاری بلز کی ادائیگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح پاکستان نے گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کی گاڑیاں امپورٹ کیں۔ اگر پاکستانی عوام بحران کے دوران غیر ضروری گاڑیاں منگوانا بند کردیں تو ملک پر معاشی دباؤکم ہوسکتا ہے۔ہمارے ملک میں اور کچھ ہو یا نہ ہو دکھاوے کیلئے برانڈڈ اشیا ء کا استعمال ضرور کیا جاتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان اشیاء کیلئے حکومت کو بھاری زرمبادلہ بیرون ممالک کو ادا کرنا پڑتا ہے جس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگیوں پر بھی ہوتے ہیں۔
اگر ہم برانڈڈ اشیا ء کے بجائے نسبتاً سستی اور مقامی اشیا ء کو ترجیح دیں تو ہماری معاشی مشکلات کافی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔پاکستان میں خوردنی تیل بھی پیٹرول کی طرح معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملکی ضرورت کا صرف 10 فیصد مقامی جبکہ 90 فیصد خوردنی تیل بیرون ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے اور اس کیلئے حکومت کو تقریبا 4ارب ڈالرتک ادا کرنا پڑتے ہیں لیکن مہنگے اور امپورٹڈ تیل کا استعمال کم کرکے ڈالرز کو ملک سے باہر جانے سے روکا جاسکتاہے۔پاکستان میں بجلی کی پیداوار کیلئے بھی تیل اور گیس کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان تیل اور گیس دونوں چیزوں کیلئے خود کفیل نہیں ہے بلکہ تیل اور گیس درامد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل بہت بڑھ جاتا ہے لیکن اگر عوام بتدریج بجلی کا استعمال کم کرکے سولر سسٹم کی طرف جاتے ہیں تو بجلی کی پیداوار کیلئے تیل اور گیس کا استعمال کم ہوسکتا ہے جو معیشت کیلئے بھی فائدہ مند ہوگا۔ہمارے ملک میں چیزوں کا ضیاع بہت زیادہ عام ہے۔
اگر ہم اسراف کی یہ عادت تبدیل کرلیں تو ہمیں اپنے بجٹ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اشیاء کی طلب میں بھی بہتری آسکتی ہے کیونکہ جب آپ ضرورت سے زیادہ کوئی چیز خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں تو مارکیٹ میں اس کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور اس کا خمیازہ قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جارہے ہیں ایسے میں اگر شہری بڑی تعداد میں بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں تو اس کیلئے بھی ڈالرز میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے جس سے ملک کو مزید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن اگر آپ کا سفر ناگزیر نہیں ہے تو اپ کچھ وقت کیلئے اپنا ارادہ ملتوی کرکے ملک کو مشکل سے بچاسکتے ہیں۔ خصوصا سیرو تفریح کیلئے جانے والے باہر سے زیادہ پاکستان میں سیر و تفریح کو ترجیح دیں تو اس سے ناصرف ملک میں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ ڈالرز کو بیرون ملک جانے سے روکا سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ قدرت نے جس فیاضی کے ساتھ وطن عزیز کو دلکش نظاروں اور دلفریب وادیوں اور حسین کھلے میدانوں سے نوازا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے پوشیدہ حسن کو دیکھا ہی نہیں ہوگا اگر وہ بیرون ملک سیاحت کی بجائے اپنے ملک کے ان گوشوں کو بے نقاب کرے جنہیں دیکھنے کیلئے دور دراز کے ممالک سے لوگ آتے ہیں اور یہاں کے نظاروں کے حسن میں کھو جاتے ہیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ وطن عزیز میں سیاحت کا شعبہ دن دگنی رات چوگنی ترقی نہ کرے اور اس طرح ہم بیرون ملک سیاحت پر جو پیسہ اُڑاتے ہیں وہ اندرون ملک معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا باعث ہو۔ اس وقت پوری دنیا ان لائن کام کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے نوجوان درست رہنمائی نہ ہونے کے باوجود ہزاروں ڈالرز کمارہے ہیں۔
یاد رکھیں۔اس وقت پاکستان کو ڈالرز کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔یہ تو وہ اقدامات ہیں جو ہم میں سے ہر کوئی اٹھا سکتا ہے تاہم بڑے اور اہم فیصلے تو سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے اورجس طرح کے حالات کا سامنا اس وقت ملک کو ہے ایسے عالم میں شاید ہی کسی ملک کی سیاسی قیادت قومی بحران سے صرف نظر کا حوصلہ رکھتی ہو، اب وقت آگیا ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی طرف بڑھا جائے۔ اس وقت مفاہمت اور مصالحت کی جس قدر ضرورت ہے شاید ہی کسی اور وقت ہو۔اس لئے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میثاق معیشت پر سب کو متفق ہونا چاہئے۔