موسموں کے اطور بدل رہے ہیں جس کو موسمیاتی تبدیلی کانام دیا گیا ہے۔دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ماہ کی 26 تاریخ تک پاکستان میں مجموعی طور پر اوسط سے 192 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ پاکستان میں جولائی میں اوسط بارشیں 51.5 ملی میٹر ہوتی ہیں تاہم اس سال یہ 150.1 ملی میٹر رہی ہیں۔محکمہ موسمیات کے مطابق سب سے زیادہ اوسط بارش بلوچستان میں ہوئی جہاں پر جولائی میں اوسط بارشیں 24.4 ملی میٹر ہوتی ہیں جبکہ اس سال جولائی میں اب تک 132.4ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جو کہ 443 فیصد زیادہ ہے۔گلگت بلتستان میں اوسط بارش گیارہ ملی میٹر ہوتی ہے جبکہ اس سال اب تک تیرہ ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جو کہ 17 فیصد زائد ہے۔ خیبر پختونخوا میں اوسط بارش 84.4 ملی میٹر کے بجائے 107.3ملی میٹر ہوئی ہے۔محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرالوجسٹ کے مطابق کراچی میں تین مقامات پر بارش ریکارڈ کی جاتی ہے۔ یہ سٹیشن ساٹھ کی دہائی میں نصب ہوئے تھے۔ جس میں ایک سٹیشن پر بارش کا اس وقت سے سارا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے جبکہ دو سٹیشنز پر ریکارڈ کے قریب ترین بارش ریکارڈ ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بدین اور نوشہرہ فیروز میں بھی جولائی کے ماہ کے بارشوں کے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔اس صورتحال کے شکار صرف یہ چند لوگ ہی نہیں بلکہ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق پورے ملک میں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔بلوچستان کے اکثر علاقوں میں وقفے وقفے سے موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے، ندی نالوں میں طغیانی اور سیلابی ریلوں سے بیشتر رابطہ سڑکیں بہہ گئیں۔صوبے بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پیش آنے والے حادثات میں اموات کی تعداد 127 ہو
گئی ہے، ساڑھے 13 ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں جبکہ بجلی کے 140 کھمبے گر چکے ہیں۔اس طرح محکمہ موسمیات نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مزید موسلا دھار بارشوں کی پیش گوئی کر دی۔ یہاں پرسب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے دور افتادہ علاقے اور بلوچستان کے بلند ترین مقام کان مہتر زئی میں نظامِ زندگی مفلوج ہو گیا۔بلوچستان کو خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ N50 پر واقع صوبے کے بلند ترین صحت افزا مقام کان مہتر زئی پر ریکارڈ توڑ طوفانی بارش ہوئی ہے۔پاکستان میں ذائقے اور مٹھاس میں شہرت رکھنے والے سیب، خوبانی اور چیری کاشت کرنا کان مہتر زئی کے مکینوں کا واحد ذریعہ معاش ہے مگر اب کاروبار اور سر کا سایہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہا۔پر فضا پہاڑوں میں پرسکون زندگی بھی سیلاب کے خطرات نے چھین لی، محفوظ جگہ کی تلاش میں متاثرین نے میدانی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔سیلابی ریلہ کئی
دیہات میں سب کچھ بہا کر لے گیا، کئی فٹ اونچے سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہوئے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر پناہ لینے لگے۔بہت سارے لوگ ریلوں میں بہہ گئے، ہرے بھرے میوہ جات کے باغات، فصلیں، پختہ سڑکیں اور قدرتی چشموں کے بجائے اب چاروں طرف صرف سیلابی ریلوں کے آثار دیکھائی دے رہے ہیں۔متاثرین کا کہنا ہے کہ برسات میں طوفانی بارشیں، سردیوں میں ہر دوسرے دن برف باری اور سخت ترین سردیاں تو دیکھتے رہے مگر برسات میں قیامت خیز سیلابی ریلے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے‘دوسری جانب کنٹرول روم کے مطابق دریائے سندھ میں گڈو بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی آمد 3 لاکھ 11 ہزار 615 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔کنٹرول روم نے بتایا ہے کہ گڈو بیراج پر پانی کا اخراج 2 لاکھ 86 ہزار 85 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ادھر گڈو بیراج کے بچاؤ بندوں پر پانی کا دباؤ بڑھنے لگا، جس کے بعد حکام کی جانب سے کچے کے مکینوں کو ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔